Saturday, 23 November 2013

جون ایلیا



میرا میری ذات میں سودا ہوا
اور میں پھر بھی نہ شرمندہ ہوا

کیا سناؤں سرگزشتِ زندگی
اک سرائے میں تھا میں ٹھیرا ہوا

پاس تھا رشتوں کا جس بستی میں عام
میں اس بستی میں بے رشتہ ہوا

اک گلی سے جب سے روٹھن ہے مری
میں ہوں سارے شہر سے روٹھا ہوا

پنج شنبہ اور دکانِ مے فروش
کیا بتاؤں کیسا ہنگامہ ہوا

خود کشی



کر چکا ہوں آج عزمِ آخری____
شام سے پہلے ہی کر دیتا تھا میں
چاٹ کر دیوار کو نوکِ زباں سے ناتواں
صبح ہونے تک وہ ہو جاتی تھی دوبارہ بلند
رات کو جب گھر کا رخ کرتا تھا میں
تیرگی کو دیکھتا تھا سرنگوں
منہ بسورے، رہگزاروں سے لپٹتے، سوگوار
گھر پہنچتا تھا میں انسانوں سے اُکتایا ہوا
میرا عزمِ آخری یہ ہے کہ میں
کود جاؤں ساتویں منزل سے آج!
آج میں نے پا لیا ہے زندگی کو بے نقاب!
آتا جاتا تھا بڑی مدت سے میں
ایک عشوہ ساز و ہرزہ کار محبوبہ کے پاس
اُس کے تختِ خواب کے نیچے مگر
آج میں نے دیکھ پایا ہے لہو
تازہ و رخشاں لہو،
بوئے مَے میں بوئے خوں الجھی ہوئی!
وہ ابھی تک خواب گہ میں لوٹ کر آئی نہیں
اور میں کر بھی چکا ہوں اپنا عزمِ آخری!
جی میں آئی ہے لگا دوں ایک بے باکانہ جست
اس دریچے میں سے جو
جھانکتا ہے ساتویں منزل سے کوئے بام کو!

شام سے پہلے ہی کر دیتا تھا میں
چاٹ کر دیوار کو نوکِ زباں سے ناتواں
صبح ہونے تک وہ ہو جاتی تھی دوبارہ بلند
آج تو آخر ہم آغوشِ زمیں ہو جائے گی!
(ن م راشد )