Saturday, 8 February 2014

 اُس رات آسمان پہ تارے تھے اِس قدر


 اُس رات آسمان پہ تارے تھے اِس قدر

دُشوار ھو رھا تھا سفر ماہتاب کا
آنکھوں میں جھلملاتے ھُوئے آنسوؤں کے پار
انگڑائی لے کے پھیل رھا تھا، چہار سُو
اِک بے کنار ھجر کا دشتِ چمن نما،
اَٹکی ھُوئی تھی نخلِ تمنا کی شاخ پر
فصلِ پریدہ رنگ کی مَسلی ھُوئی قبا
اِک اجنبی دُعا
کِھلنے لگے تھے دستِ ھوا پر خزاں کے پُھول
جاتی ھُوئی بہار کے ٹوُٹے ھُوئے اصُول
چہرہ ازل کی آگ تھا، آنکھیں ابد کی دُھول


اُس رات ٹوُٹتے ھُوئے تاروں کی گوُنج میں
ھم کتنی دیر چلتے رھے، کچھ پتہ نہیں
کب تک ھم اپنے اَن کہے لفظوں کی کِرچیاں
فرشِ ھوا سے چُنتے رھے، کچھ پتہ نہیں!

شبنم کے ساتھ ساتھ جو چمکے تمام شب
تارے تھے وہ کہ عکس مِرے آنسوؤں کے تھے!
کیوں قُربتوں کے شور میں گُھٹنے لگا تھا دَم
قسمت کے تھے کہ حلقے تِرے بازوؤں کے تھے
کچھ پتہ نہیں ـــــــــ !


گرد اِس قدر ھے آئنہء ماہ و سال پر
خوابوں کے عکس اپنے خدوخال کھو گئے
آنکھوں کے رنگ لے گئی تاروں کی روشنی
چہروں کے نقش ریت کی تحریر ھو گئے
تکتے تھے دِل کی سمت جو قرنوں کی اَوٹ سے
بے نام خواھشوں کے وہ موسم بدل گئے
سُورج غروُب ھو گئے، مہتاب ڈھل گئے
اُس بے کنار ھجر کا دشتِ چمن نما
تمثالِ دشتِ کرب و بلا بن چُکا ھے اب
طائر شہید ھو چُکے، اشجار جل گئے


یہ سچ ھے لوحِ وقت پر تحریرِ موجِ رنگ
نقش و نگارِ آب کی صوُرت ھے برق پا
اک بار پُل تلے سے جو پانی گزر گیا
سمجھو کہ مر گیا
ساحل کا جھاگ ھو کہ مِٹے یا کہ رزقِ اَبر
آتا نہیں پلٹ کے کبھی، جو گیا ــــــــ گیا
لیکن یہ کیا کہ آج بھی جس رات ماہتاب
تاروں کے بے کنار میں رستہ نہ پا سکے
آنکھوں میں جھلملاتے ھُوئے آنسوؤں کے پار
مِلتی ھیں اِس طرح سے زمانوں کی سرحدیں
چلتا نہیں پتہ،
ھم پیچھے رہ گئے ھیں کہ آگے نکل گئے ـــــ !

(امجد اسلام امجد ) 
کو بہ کو پھیل گئی



Wednesday, 5 February 2014

 آج جانے کی ضد نہ کرو



آج جانے کی ضد نہ کرو
یونہی پہلو میں بیٹھے رہو 

ہاے مر جایئں گے 
ہم تو لٹ جایئں گے 
ایسی باتیں کیا نہ کرو

تم ہی سوچو ذرا 
کیوں نہ روکیں تمہیں 
 جان جاتی ہے جب اٹھ کے جاتے ہو تم 
تم کو اپنی قسم جان جاں
بات اتنی میری مان لو 

وقت کی قید میں زندگی ہے مگر 
چند گھڑیاں یہی ہیں جو آزاد ہیں 
ان کو کھو کر میری جان جاں 
عمر بھر نہ ترستے رہو 

کتنا معصوم اور رنگین ہے یہ سماں 
حسن اور عشق کی آج معراج ہے 
کل کی کس کو خبر جان جاں 
روک لو آج کی رات کو 

آج جانے کی ضد  نہ کرو 
یونہی پہلو میں بیٹھے رہو
 

 تیرے خیال کی خوشبو 


تیرے خیال کی خوشبو ہے اور بس میں ہوں 
میرے قریب فقط تو ہے اور بس میں ہوں 

یہ انتظار کے لمحے بھی بانٹ لے مجھ سے
 کہ تیرا ہجر ہر ایک سو ہے اور بس میں ہوں 

نظر سے دور کوئی اور بھی جہاں ہوگا 
میری نظر میں فقط تو ہے اور بس میں ہوں