Phir mauj-e-hawa pehchaan ay Meer nazar aayi......Shayed ke bahaar aayi zanjeer nazar aayi.....!!
Monday, 16 December 2013
Sawan Main Ghabra Jata Hai
ساون میں گھبرا جاتا ہے
دل میرا صحرا جاتا ہے
الف سمجھ میں آجاوے تو
سب کچھ پڑھنا آ جاتا ہے
برف کا اک اک آنسو پی کر
دریا وجد میں آتا ہے
اصل سفر ہے وہاں سے آگے
جہاں تلک راستہ جاتا ہے
لڑکی میلے میں تنہا تھی
سوچ کے دل بیٹھا جاتا ہے
جب میں جنگل ہو جاتا ہوں
مور ناچنے آ جاتا ہے
شاید اس نے دستک سن لی
دیکھو در کھلتا جاتا ہے
نیند کے بین بجاتے ہی اشکؔ
بستر میں سانپ آ جاتا ہے
(پروین کمار اشکؔ)
December Ki Akhri Shab
آج دسمبر کی آخری شب میں
شب تنہایی میں
اپنے ٹیرس پہ کھڑی کافی دیر سے میں
چودھویں کے چاند کو دیکھ رہی تھی
جس کی چاندنی میں
میں بھیگ گئی تھی
اتنی ڈوب گئی تھی
کہ مجھے خبر بھی نہ ہو سکی
کہ کب
اس نے میری بکھری زلفوں کو سمیٹا تھا
اور!
چھپ کے سے کانوں میں سرگوشی کی تھی
اپنی محبت کا اظہار کیا تھا
مجھے عہد وفا میں باندھ کر گیا تھا
وہ لمحہ اتنا حسین تھا
کہ!
حیا سے میری پلکیں جھک سی گئی تھیں
میں اپنے آپ میں سمٹ سی گئی تھی
پچھلے سال دسمبر کی آخری شب ایسی ہی تھی
اور آج بھی دسمبر کی آخری شب ہے
اور میں
یہ سوچ رہی ہوں کہ!!!
آج وہ کس کے ساتھ ہوگا...؟
کہ آج وہ...
کس کواپنی وفا کا یقین دلا رہا ہوگا...؟؟
بچپن کا دسمبر
بچپن کا وہ دسمبر
ٹھٹھرتی ڈھلتی شاموں میں
آنگن کی دیوار سے سرکتی دھوپ
جلتے ہوئے کوئلے کی مہک
اور میرے پھٹے ہوئے گالوں پر
لکیریں بناتے
وہ جمے ہوئے آنسو...
آسمان پر جمتی، وہ بادلوں کی دھند دیکھ کر
امی کا دروازے میں کھڑے ہو کر پکارنا
اور ہم سب کا مٹی بھر کنچے سنبھال کر
اپنے اپنے گھروں کو بھاگنا...
رات بھر چپ چپ کر
آسمان کو دیکھ
برف دیکھنے کی دعا کرنا
اور صبح پھوٹتے ہی
صحن میں گرتی برف کے ستارے چننا
اور برف گراتے آسماں کو دیکھ دیکھ
خود کو بھی برف کے گالوں کے ساتھ
اڑتے ہوئے محسوس کرنا
پھر تم آ گیئں...
اور بچپن کا دسمبر بیت گیا
تب پہروں اس سرکتی دھوپ تلے
اور ان ٹھٹھرتی شاموں میں
میں تمہاری ایک جھلک دیکھنے کے لئے
آسماں سے گرتی برف کی چاندنی
اپنے وجود پر سجاتا رہا اور
زمین پر بچھی اس سفید چادر پر
میرے قدموں کا ہر نشان
تمہارے گھر کی دہلیز تک ہی جاتا رہا
پھر وو دسمبر بھی بیت گیا
اور دیکھو...
میں اب بھی گلی کے اسی نکڑ پر کھڑا ہوں
ٹھٹھرتی ڈھلتی شام بھی ہے
پر سنہری دھوپ نہیں سرکتی
وقت جیسے تھم سا گیا ہے
برف کے ستارے میرے بالوں میں
چاندنی بکھیر تو رہے ہیں
پر انھیں بھگو نہیں پاتے
یہ کیسی برفیلی شام ہے
جس کی سردی میرے آنسو جما نہیں پا رہی
جلتے کوئلوں کا دھواں
آنکھ تو جلاتا ہے
پر اس میں وہ مہک نہیں ہے
اور دیکھو میرے گھر کا دروازہ...
پٹ کھولے کھڑا تو ہے لیکن
امی کی ڈانٹ نجانے کہاں کھو گی ہے؟
تمہارے گھر کی طرف جاتے سبھی راستے
اس قدر سنسان کیوں پڑے ہیں؟
اس برفیلی شام میں
اور
میرے بچپن کے دسمبر میں
کتنا فرق ہے
(ہاشم ندیم خان )
Subscribe to:
Posts (Atom)