Monday, 16 December 2013

روٹھا رہے مجھ سے یہ منظور ہے لیکن 
یارو اسے سمجھاؤ میرا شہر نہ چھوڑے

Barishain Naheen Rukteen !!

بارشوں کے موسم میں
تم کو یاد کرنے کی 
عادتیں پرانی ہیں 
اب کی بار سوچا ہے 
بارشوں کے موسم میں 
تم کو یاد کرنے کی 
عادتیں بدل ڈالیں
پھر خیال آیا کہ 
عادتیں بدلنے سے بارشیں نہیں رکتیں
بارشیں نہیں رکتیں !!! 

Ishq

عشق وہ رنگ ہے  قتیلؔ
بارشوں سے بھی جو نہیں جاتا

Zeest


پہلے شراب زیست تھی، اب زیست ہے شراب 
کوئی پلا رہا ہے، پئے  جا رہا ہوں میں

Sharab

ساقیا تشنگی کی تاب نہی 
زہر دے دے اگر  شراب نہیں

Sawan Main Ghabra Jata Hai


ساون میں گھبرا جاتا ہے 
دل میرا صحرا جاتا ہے 

الف سمجھ میں آجاوے تو 
 سب کچھ پڑھنا آ جاتا ہے 

برف کا اک اک آنسو پی کر 
دریا وجد میں آتا ہے 

اصل سفر ہے وہاں سے آگے 
جہاں تلک راستہ جاتا ہے 

لڑکی میلے میں تنہا تھی 
سوچ  کے دل بیٹھا جاتا ہے 

جب میں جنگل ہو جاتا ہوں 
مور ناچنے آ جاتا ہے 

شاید اس نے دستک سن لی 
دیکھو در کھلتا جاتا ہے 

نیند کے بین بجاتے ہی اشکؔ
 بستر میں سانپ آ جاتا ہے 

(پروین کمار اشکؔ)

December Ki Akhri Shab



آج دسمبر کی آخری شب میں 
شب تنہایی میں 
اپنے ٹیرس پہ کھڑی کافی دیر سے میں
چودھویں کے چاند کو دیکھ رہی تھی 
جس کی چاندنی میں 
میں بھیگ گئی تھی 
اتنی ڈوب گئی تھی
کہ مجھے خبر بھی نہ ہو سکی 
کہ کب 
اس نے میری بکھری زلفوں کو سمیٹا تھا 
اور!
چھپ  کے سے کانوں میں سرگوشی کی تھی
اپنی محبت کا اظہار کیا تھا 
مجھے عہد وفا میں باندھ کر گیا تھا 
وہ لمحہ اتنا حسین تھا 
کہ!
حیا سے میری پلکیں جھک سی گئی تھیں 
میں اپنے آپ میں سمٹ سی گئی تھی 
پچھلے سال دسمبر کی آخری شب ایسی ہی تھی 
اور آج بھی دسمبر کی آخری شب ہے 
اور میں 
یہ سوچ رہی ہوں کہ!!!
آج وہ کس کے ساتھ ہوگا...؟
کہ آج وہ...
 کس کواپنی وفا کا یقین دلا رہا ہوگا...؟؟


December


دسمبر ہوش  کر  پاگل یہ تجھ کو کیا  ہوا آخر 
بنا برسے چلے جانا تیری عادت نہ تھی پہلے 

بچپن کا دسمبر


ہاں مجھے یاد ہے 
بچپن کا وہ دسمبر
ٹھٹھرتی ڈھلتی شاموں میں 
آنگن کی دیوار سے سرکتی دھوپ 
جلتے ہوئے کوئلے کی مہک 
 اور میرے پھٹے ہوئے گالوں پر 
لکیریں بناتے 
وہ  جمے ہوئے آنسو...
آسمان پر جمتی، وہ بادلوں کی دھند دیکھ کر 
امی کا دروازے میں کھڑے ہو کر پکارنا 
اور ہم سب کا مٹی بھر کنچے سنبھال کر 
اپنے اپنے گھروں کو بھاگنا...
رات بھر چپ چپ کر 
آسمان کو دیکھ 
برف دیکھنے کی دعا کرنا 
اور صبح پھوٹتے ہی 
صحن میں گرتی برف کے ستارے چننا 
اور برف گراتے آسماں کو دیکھ دیکھ 
خود کو بھی برف کے گالوں کے ساتھ 
اڑتے ہوئے محسوس کرنا 
پھر تم آ گیئں...
اور بچپن کا دسمبر بیت گیا 
تب  پہروں اس سرکتی دھوپ تلے 
اور ان ٹھٹھرتی شاموں میں 
میں تمہاری ایک جھلک دیکھنے کے لئے 
آسماں سے گرتی برف کی چاندنی 
اپنے وجود پر سجاتا رہا اور 
زمین پر بچھی اس سفید چادر پر 
میرے قدموں کا ہر نشان 
تمہارے گھر کی دہلیز تک ہی جاتا رہا
پھر وو دسمبر بھی بیت گیا 
اور دیکھو...
میں اب بھی گلی کے اسی نکڑ پر کھڑا ہوں 
ٹھٹھرتی ڈھلتی شام بھی ہے 
پر سنہری دھوپ نہیں سرکتی 
وقت جیسے تھم سا گیا ہے 
برف کے ستارے میرے بالوں میں 
چاندنی بکھیر تو رہے ہیں 
پر انھیں بھگو نہیں پاتے 
یہ کیسی برفیلی شام ہے 
جس کی سردی میرے آنسو جما نہیں پا رہی 
جلتے کوئلوں کا دھواں 
آنکھ تو جلاتا ہے 
پر اس میں وہ  مہک نہیں ہے
اور دیکھو میرے گھر کا دروازہ...
پٹ کھولے کھڑا تو ہے لیکن 
امی کی ڈانٹ نجانے کہاں کھو گی ہے؟
تمہارے گھر کی طرف جاتے سبھی راستے 
اس قدر سنسان کیوں پڑے  ہیں؟
اس برفیلی شام میں
 اور
میرے بچپن کے دسمبر میں 
کتنا فرق ہے 
(ہاشم ندیم خان )