ساون میں گھبرا جاتا ہے
دل میرا صحرا جاتا ہے
الف سمجھ میں آجاوے تو
سب کچھ پڑھنا آ جاتا ہے
برف کا اک اک آنسو پی کر
دریا وجد میں آتا ہے
اصل سفر ہے وہاں سے آگے
جہاں تلک راستہ جاتا ہے
لڑکی میلے میں تنہا تھی
سوچ کے دل بیٹھا جاتا ہے
جب میں جنگل ہو جاتا ہوں
مور ناچنے آ جاتا ہے
شاید اس نے دستک سن لی
دیکھو در کھلتا جاتا ہے
نیند کے بین بجاتے ہی اشکؔ
بستر میں سانپ آ جاتا ہے
(پروین کمار اشکؔ)
No comments:
Post a Comment