Phir mauj-e-hawa pehchaan ay Meer nazar aayi......Shayed ke bahaar aayi zanjeer nazar aayi.....!!
Tuesday, 28 January 2014
Saturday, 18 January 2014
واصف علی واصف
محبوب کا سب سے قیمتی تحفہ اپنے محبوب کے لیۓ فراق کا تحفہ ہے۔
فراق سے اندر کا انسان بیدار ہوتا ہے، انسان کا اپنا باطن اس پر آشکار
ہوتا ہے۔ محبوب کی یاد اسے جگاتی ہے۔ ہجر کی رات، غم کی رات عرفان ذات کی
رات ہوتی ہے۔۔۔۔!!!
ایں قدَر مَستم کہ از چشمَم شراب آید بروں
ایں قدَر مَستم کہ از چشمَم شراب آید بروں
وَز دلِ پُر حسرتم دُودِ کباب آید بروں
"میں اس قدر مست ہوں کہ میری آنکھوں سے (آنسوؤں کی جگہ) شراب باہر آ رہی ہے اور میرے دلِ پُر حسرت سے اس طرح دھواں اٹھ رہا ہے کہ جیسے کباب سے دھواں اٹھتا ہے۔"
ماہِ من در نیم شب چوں بے نقاب آید بروں
زاہدِ صد سالہ از مسجد خراب آید بروں
"میرا چاند آدھی رات کو اگر بے نقاب باہر نکلے تو سو سالہ زاہد بھی مسجد سے خراب اور اسکا دیوانہ ہو کر باہر نکل آئے۔"
صُبح دم چوں رُخ نمودی شُد نمازِ من قضا
سجدہ کے باشد روا چوں آفتاب آید بروں
"صبح کے وقت جب تیرا چہرا دیکھا تو میری نماز قضا ہو گئی کیونکہ سجدہ کیسے روا ہو سکتا ہے جب کہ سوج نکل آئے۔"
ایں قدَر رندَم کہ وقتِ قتل زیرِ تیغِ اُو
جائے خوں از چشمِ من موجِ شراب آید بروں
"میں اس قدر رند ہوں کہ وقتِ قتل اسکی تلوار کے نیچے، خون کی بجائے میری آنکھوں سے موجِ شراب ابل ابل کر باہر آ رہی ہے۔"
یارِ من در مکتب و من در سرِ رہ منتظر
منتظر بودم کہ یارم با کتاب آید بروں
"میرا یار مکتب میں ہے اور میں راہ میں کھڑا منتظر ہوں کہ وہ کتاب کے ساتھ کب باہر آتا ہے۔"
Labels:
Farsi,
Literature,
Persian,
Poem,
Poetry,
Tarjuma,
Translation
اداس آنکھیں میری
یہ اداس آنکھیں میری..!
کرب تنہائی میں جلتی ہوئی اس ذات کے دروازے پر
راستہ دیکھتی رہتی ہیں کسی بادل کا---
ایسا بادل
جو مرے جسم کے صحرا کو بھی ساحل کر دے
ہاتھ ہاتھوں پہ رکھے
روح کو جل تھل کر دے.......!
اداس آنکھیں میری..!
ظلم کی دھند میں لپٹی ہوئی اسرات کے دروازے پر
راستہ دیکھتی رہتی ہیں کسی سورج کا
ایسا سورج
جو محبت کے ہر اک نقش کو روشن کر دے
خوف کی لہر سے جمتے ہوئے لوگوں میں حرارت بھر دے......!
بھاگتے دوڑتے اس وقت کے ہنگامے میں
وہ جو اک لمحہ امر ہے..
وہ ٹھہرتا ہی نہیں...'
بے یقینی کا یہ ماحول بکھرتا ہی نہیں..
میرا سورج !!!
میرے آنگن میں اترتا ہی نہیں !!!
کرب تنہائی میں جلتی ہوئی اس ذات کے دروازے پر
راستہ دیکھتی رہتی ہیں کسی بادل کا---
ایسا بادل
جو مرے جسم کے صحرا کو بھی ساحل کر دے
ہاتھ ہاتھوں پہ رکھے
روح کو جل تھل کر دے.......!
اداس آنکھیں میری..!
ظلم کی دھند میں لپٹی ہوئی اسرات کے دروازے پر
راستہ دیکھتی رہتی ہیں کسی سورج کا
ایسا سورج
جو محبت کے ہر اک نقش کو روشن کر دے
خوف کی لہر سے جمتے ہوئے لوگوں میں حرارت بھر دے......!
بھاگتے دوڑتے اس وقت کے ہنگامے میں
وہ جو اک لمحہ امر ہے..
وہ ٹھہرتا ہی نہیں...'
بے یقینی کا یہ ماحول بکھرتا ہی نہیں..
میرا سورج !!!
میرے آنگن میں اترتا ہی نہیں !!!
Friday, 3 January 2014
سفرنامہ
اُسے ضد کہ نُور کے ناشتے میں
شریک ہوں!
ہمیں خوف تھا سحرِ ازل
کہ وہ خود پرست نہ روک لے
ہمیں اپنی راہِ دراز سے
کہیں کامرانیِ نَو کے عیش و سُرور میں
ہمیں روک لے
نہ خلا کے پہلے جہاز سے
جو زمیں کی سمت رحیل تھا!
ہمیں یہ خبر تھی بیان و حرف کی خُو اُسے
ہمیں یہ خبر تھی کہ اپنی صورتِ گلو اُسے
ہے ہر ایک شے سے عزیز تر
ہمیں اور کتنے ہی کام تھے (تمہیں یاد ہے؟)
ابھی پاسپورٹ لیے نہ تھے
ابھی ریزگاری کا انتظار تھا
سوٹ کیس بھی ہم نے بند کیے نہ تھے
اُسے ضد کہ نُور کے ناشتے میں شریک ہوں!
وہ تمام ناشتہ
اپنے آپ کی گفتگو میں لگا رہا
"ہے مجھے زمیں کے لیے خلیفہ کی جستجو
کوئی نیک خُو
جو مرا ہی عکس ہو ہُو بہُو!"
تو امیدواروں کے نام ہم نے لکھا دیے
اور اپنا نام بھی ساتھ اُن کے بڑھا دیا!
"مری آرزو ہے شجر ہجر
مری راہ میں شب و روز
سجدہ گزار ہوں۔۔۔
مری آرزو ہے کہ خشک و تر
مری آرزو میں نزاز ہوں ۔۔۔
مری آرزو ہے کہ خیر و شر
مرے آستاں پہ نثار ہوں
مری آرزو۔۔۔ مری آرزو ۔۔۔"
شجر و حجر تھے نہ خشک و تر
نہ ہمیں مستیِ خیر و شر
ہمیں کیا خبر؟
تو تمام ناشتہ چپ رہے
وہ جو گفتگو کا دھنی تھا
آپ ہی گفتگو میں لگا رہا!
بڑی بھاگ دوڑ میں
ہم جہاز پکڑ سکے
اسی انتشار میں کتنی چیزیں
ہماری عرش پہ رہ گئیں
وہ تمام عشق۔۔۔ وہ حوصلے
وہ مسرّتیں۔۔ وہ تمام خواب
جو سوٹ کیسوں میں بند تھے!
(ن م راشد)
Naya Saal
اے نیے سال بتا تجھ میں نیا کیا ہے؟
ہر طرف خلق نے کیوں شور مچا رکھا ہے؟
روشنی دن کی وہ، تاروں بھری رات وہی
آج بھی ہم کو نظر آتی ہے ہر بات وہی
آسمان بدلہ ہے نہ بدلی یہ افسردہ زمیں
ایک ہندسے کا بدلنا کوئی جدّت تو نہیں
اگلے سالوں کی طرح ہوں گے قرینے تیرے
کسے معلوم نہیں بارہ مہینے تیرے؟
بےسبب لوگ کیوں دیتے ہیں مبارک بادیں؟
سب کیا بھول گئے وقت کی کڑوی یادیں؟
تو نیا ہے تو دکھا صبح نیی شام نیی
ورنہ ان آنکھوں نے دیکھے ہیں نیے سال کیی
(امجد اسلام امجد)
Subscribe to:
Posts (Atom)