اُسے ضد کہ نُور کے ناشتے میں
شریک ہوں!
ہمیں خوف تھا سحرِ ازل
کہ وہ خود پرست نہ روک لے
ہمیں اپنی راہِ دراز سے
کہیں کامرانیِ نَو کے عیش و سُرور میں
ہمیں روک لے
نہ خلا کے پہلے جہاز سے
جو زمیں کی سمت رحیل تھا!
ہمیں یہ خبر تھی بیان و حرف کی خُو اُسے
ہمیں یہ خبر تھی کہ اپنی صورتِ گلو اُسے
ہے ہر ایک شے سے عزیز تر
ہمیں اور کتنے ہی کام تھے (تمہیں یاد ہے؟)
ابھی پاسپورٹ لیے نہ تھے
ابھی ریزگاری کا انتظار تھا
سوٹ کیس بھی ہم نے بند کیے نہ تھے
اُسے ضد کہ نُور کے ناشتے میں شریک ہوں!
وہ تمام ناشتہ
اپنے آپ کی گفتگو میں لگا رہا
"ہے مجھے زمیں کے لیے خلیفہ کی جستجو
کوئی نیک خُو
جو مرا ہی عکس ہو ہُو بہُو!"
تو امیدواروں کے نام ہم نے لکھا دیے
اور اپنا نام بھی ساتھ اُن کے بڑھا دیا!
"مری آرزو ہے شجر ہجر
مری راہ میں شب و روز
سجدہ گزار ہوں۔۔۔
مری آرزو ہے کہ خشک و تر
مری آرزو میں نزاز ہوں ۔۔۔
مری آرزو ہے کہ خیر و شر
مرے آستاں پہ نثار ہوں
مری آرزو۔۔۔ مری آرزو ۔۔۔"
شجر و حجر تھے نہ خشک و تر
نہ ہمیں مستیِ خیر و شر
ہمیں کیا خبر؟
تو تمام ناشتہ چپ رہے
وہ جو گفتگو کا دھنی تھا
آپ ہی گفتگو میں لگا رہا!
بڑی بھاگ دوڑ میں
ہم جہاز پکڑ سکے
اسی انتشار میں کتنی چیزیں
ہماری عرش پہ رہ گئیں
وہ تمام عشق۔۔۔ وہ حوصلے
وہ مسرّتیں۔۔ وہ تمام خواب
جو سوٹ کیسوں میں بند تھے!
(ن م راشد)
No comments:
Post a Comment