Tuesday, 29 October 2013

عشق تاثیر سے نو مید نہیں



عشق تاثیر سے نو مید نہیں 
جاں سپاری شجر بید نہیں 

سلطنت دست بہ دست آئی  ہے 
جام مے خاتم جمشید نہیں 

ہے تجلی تیری سامان وجود 
زرہ بے پرتو خورشید نہیں 

راز معشوق نہ رسوا ہو جائے 
ورنہ مر جانے میں کچھ بھید نہیں 

گردش رنگ طرب سے ڈر ہے 
غم محرومئ جاوید نہیں 

کہتے ہیں جیتے ہیں امید پہ  لوگ 
ہم کو جینے کی بھی امید نہیں 

(غالب )

کہو اک دن


کہو اک دن !

کہ جو کچھ بھی ہمارے پاس ہے
سب کچھ تمہارا ہے....

کہو اک دن !

ستارہ سی جنھیں کہتے ہو
وہ آنکھیں تمہاری ہیں
جنھیں تم شاخ سی کہتے ہو
وہ بانہیں تمہاری ہیں
جنھیں تم پھول سی کہتے ہو
وہ باتیں تمہاری ہیں

کہ جو کچھ بھی ہمارے پاس ہے
سب کچھ تمہارا ہے...

اگر سب کچھ یہ میرا ہے تو
سب کچھ بخش دو اک دن
وجود اپنا مجھے تم دے دو
محبت دو اک دن
میرے ہاتھوں پہ اپنے ہاتھ رکھ کر
روح کھینچھ لو اک دن....

کہو اک دن !

کہ جو کچھ بھی ہمارے پاس ہے
سب کچھ تمہارا ہے.....

شہر کے دکاندارو


شہر کے دکاندارو !!

کاروبار الفت میں
سود کیا زیاں کیا ہے؟؟؟
تم نہ جان پاؤ گے.......!!!

دل کے دام کتنے ہیں
خواب کتنے مہنگے ہیں
اور نقد جاں کیا یے؟؟؟؟؟؟
تم نہ جان پاؤ گے.......!!!

کوئی کیسے ملتا ہے
پھول کیسے کِھلتا ہے
آنکھ کیسے جھکتی ہے
سانس کیسے رکتی ہے

کیسے راہ نکلتی ہے
کیسے بات چلتی ہے
شوق کی زباں کیا ہے؟؟؟
تم نہ جان پاؤ گے........!!!!

شھر کے دکاندارو، شھر کے دکاندارو !!!!!

وصل کا سکوں کیا ہے؟؟؟
ہجر کا جنوں کیا ہے؟؟؟
حسن کا فسوں کیا ہے؟؟؟
عشق کے دروں کیا ہے؟؟؟

تم مریض دانائی
مصلحت کے شیدائی
راہ گمراھاں کیا ہے؟؟؟
تم نہ جان پاؤ گے........!!!!

زخم کیسے جلتے ہیں؟؟؟
داغ کیسے جلتے ہیں؟؟؟
درد کیسے ہوتا ہے؟؟؟
کوئی کیسے روتا ہے؟؟؟

اشک کیا ہے نالے کیا؟؟؟
دشت کیا چھالے کیا؟؟؟
آہ کیا فغاں کیا ہے؟؟؟
تم نہ جان پاؤ گے..........!!!

جانتا ہوں میں تم کو
ذوق شاعری بھی ہے
شخصیت سجانے میں
اک یہ ماہری بھی ہے

پھر بھی حرف چنتے ہو
صرف لفظ سنتے ہو
ان کے درمیان کیا ہے؟؟؟
تم نہ جان پاؤ گے............!!!

شہر کے دکاندارو !!

کاروبار الفت میں
سود کیا زیاں کیا ہے؟؟؟
تم نہ جان پاؤ گے.........!!!

Monday, 28 October 2013

Hassan Koozagar 4


حسن کوزہ گر -  ٤ (ن م راشد )

جہاں زاد، کیسے ہزاروں برس بعد
اِک شہرِ مدفون کی ہر گلی میں
مرے جام و مینا و گُلداں کے ریزے ملے ہیں
کہ جیسے وہ اِس شہرِ برباد کا حافظہ ہوں!
(حَسَن نام کا اِک جواں کوزہ گر  اِک نئے شہر میں
اپنے کوزے بناتا ہوا، عشق کرتا ہوا
اپنے ماضی کے تاروں میں ہم سے پرویا گیا ہے
ہمیں میں (کہ جیسے ہمیں ہوں) سمویا گیا ہے
کہ ہم تم وہ بارش کے قطرے تھے جو رات بھر سے،
(ہزاروں برس رینگتی رات بھر)
اِک دریچے کے شیشوں پہ گرتے ہوئے سانپ لہریں
بناتے رہے ہیں،
اور اب اس جگہ وقت کی صبح ہونے سے پہلے
یہ ہم اور یہ نوجواں کوزہ گر
ایک رویا میں پھر سے پروئے گئے ہیں! )

جہاں زاد ۔۔۔ 
یہ کیسا کہنہ پرستوں کا انبوہ
کوزوں کی لاشوں میں اُترا ہے
دیکھو!
یہ وہ لوگ ہیں جن کی آنکھیں
کبھی جام و مینا کی لِم تک نہ پہنچیں
یہی آج اس رنگ و روغن کی مخلوقِ بے جاں
کو پھر سے اُلٹنے پلٹنے لگے ہیں
یہ اِن کے تلے غم کی چنگاریاں پا سکیں گے
جو تاریخ کو کھا گئی تھیں؟
وہ طوفان، وہ آندھیاں پا سکیں گے
جو ہر چیخ کو کھا گئی تھیں؟
انہیں کیا خبر کِس دھنک سے مرے رنگ آئے 
(مرے اور اِس نوجواں کُوزہ گر کے؟)
انہیں کیا خبر کون سی تتلیوں کے پروں سے؟
انہیں کیا خبر کون سے حُسن سے؟
کون سی ذات سے، کس خد و خال سے
میں نے کُوزوں کے چہرے اُتارے؟
یہ سب لوگ اپنے اسیروں میں ہیں
زمانہ، جہاں زاد، افسوں زدہ برج ہے
اور یہ لوگ اُس کے اسیروں میں ہیں
جواں کوزہ گر ہنس رہا ہے!
یہ معصوم وحشی کہ اپنے ہی قامت سے ژولیدہ دامن
ہیں جویا کسی عظمتِ نارسا کے
انہیں کیا خبر کیسا آسیبِ مبرم مرے غار سینے پہ تھا
جس نے مجھ سے (اور اِس کوزہ گر سے) کہا:
"اے حَسَن کوزہ گر، جاگ
دردِ رسالت کا روزِ بشارت ترے جام و مینا
کی تشنہ لبی تک پہنچنے لگا ہے!"
یہی وہ ندا، جس کے پیچھے حَسَن نام کا
یہ جواں کوزہ گر بھی
پیا پے رواں ہے زماں سے زماں تک،
خزاں سے خزاں تک!

جہاں زاد میں نے ۔۔۔ ۔۔ حَسَن کوزہ گر نے
بیاباں بیاباں یہ دردِ رسالت سہا ہے
ہزاروں برس بعد یہ لوگ
ریزوں کو چُنتے ہوئے
جان سکتے ہیں کیسے
کہ میرے گِل و خاک کے رنگ و روغن
ترے نازک اعضا کے رنگوں سے مل کر
ابد کی صدا بن گئے تھے؟
میں اپنے مساموں سے، ہر پور سے،
تیری بانہوں کی پنائیاں
جذب کرتا رہا تھا
کہ ہر آنے والے کی آنکھوں کے معبد پہ جا کر چڑھاؤں
یہ ریزوں کی تہذیب پا لیں تو پا لیں
حَسَن کوزہ گر کو کہاں لا سکیں گے؟
یہ اُس کے پسینے کے قطرے کہاں گن سکیں گے؟
یہ فن کی تجلی کا سایہ کہاں پا سکیں گے؟
جو بڑھتا گیا ہے زماں سے زماں تک
خزاں سے خزاں تک
جو ہر نوجواں کُوزہ گر کی نئی ذات میں
اور بڑھتا چلا جا رہا ہے!
وہ فن کی تجلی کا سایہ کہ جس کی بدولت
ہمہ عشق ہیں ہم
ہمہ کوُزہ گر ہم
ہمہ تن خبر ہم
خُدا کی طرح اپنے فن کے خُدا سر بسر ہم!
(آرزوئیں کبھی پایاب تو سَریاب کبھی،
تیرنے لگتے ہیں بے ہوشی کی آنکھوں میں کئی چہرے
جو دیکھے بھی نہ ہوں
کبھی دیکھے ہوں کسی نے تو سراغ اُن کا
کہاں سے پائے؟
کِس سے ایفا ہوئے اندوہ کے آداب کبھی
آرزوئیں کبھی پایاب تو سَریاب کبھی!)

یہ کوزوں کے لاشے، جو اِن کے لئے ہیں
کسی داستانِ فنا کے وغیرہ وغیرہ
ہماری اذاں ہیں، ہماری طلب کا نشاں ہیں
یہ اپنے سکوتِ اجل میں بھی یہ کہہ رہے ہیں:
"وہ آنکھیں ہمیں ہیں جو اندر کھُلی ہیں
تمہیں دیکھتی ہیں، ہر ایک درد کو بھانپتی ہیں
ہر اِک حُسن کے راز کو جانتی ہیں
کہ ہم ایک سنسان حجرے کی اُس رات کی آرزو ہیں
جہاں ایک چہرہ، درختوں کی شاخوں کے مانند
اِک اور چہرے پہ جھُک کر، ہر انسان کے سینے میں
اِک برگِ گُل رکھ گیا تھا
اُسی شب کا دزدیدہ بوسہ ہمیں ہیں!

Hassan Koozagar 3


حَسَن کوزہ گر- ٣ (ن م راشد)
جہاں زاد،
وہ حلب کی کارواں سرا کا حوض، رات وہ سکوت
جس میں ایک دوسرے سے ہم کنار تیرتے رہے
محیط جس طرح ہو دائرے کے گرد حلقہ زن
تمام رات تیرتے رہے تھے ہم
ہم ایک دوسرے کے جسم و جاں سے لگ کے
تیرتے رہے تھے ایک شاد کام خوف سے
کہ جیسے پانی آنسوؤں میں تیرتا رہے

ہم ایک دوسرے سے مطمئن زوالِ عمر کے خلاف
تیَرتے رہے
تو کہہ اٹھی؛ “حَسَن یہاں بھی کھینچ لائی
جاں کی تشنگی تجھے!“
(لو اپنی جاں کی تشنگی کو یاد کر رہا تھا مَیں
کہ میرا حلق آنسوؤں کی بے بہا سخاوتوں
سے شاد کام ہو گیا!)
مگر یہ وہم دل میں تَیرنے لگا کہ ہو نہ ہو
مرا بدن کہیں حلب کے حوض ہی میں رہ گیا
نہیں، مجھے دوئی کا واہمہ نہیں
کہ اب بھی ربطِ جسم و جاں کا اعتبار ہے مجھے
یہی وہ اعتبار تھا
کہ جس نے مجھ کو آپ میں سمو دیا
مَیں سب سے پہلے “آپ“ ہُوں
اگر ہمیں ہوں  تُو ہو او مَیں ہوں  پھر بھی مَیں
ہر ایک شے سے پہلے آپ ہوں!
اگر مَیں زندہ ہوں تو کیسے “آپ“ سے دغا کروں؟
کہ تیری جیسی عورتیں، جہاں زاد،
ایسی الجھنیں ہیں
جن کو آج تک کوئی نہیں “سلجھ“ سکا
جو مَیں کہوں کہ مَیں “سلجھ“ سکا تو سر بسر
فریب اپنے آپ سے!
کہ عورتوں کی وہ ساخت ہے وہ طنز اپنے آپ پر
جواب جس کا ہم نہیں

(لبیب کون ہے؟ تمام رات جس کا ذکر
تیرے لب پہ تھا
وہ کون تیرے گیسوؤں کو کھینچتا رہا
لبوں کو نوچتا رہا

جو مَیں کبھی نہ کر سکا
نہیں یہ سچ ہے میں ہوں یا لبیب ہو
رقیب ہو تو کس لیے تری خود آگہی کی بے ریا نشاطِ ناب کا
جو صدا نوا و یک نوا خرام ِ صبح کی طرح
لبیب ہر نوائے سازگار کی نفی سہی!)
مگر ہمارا رابطہ وصالِ آب و گِل نہیں، نہ تھا کبھی
وجودِ آدمی سے آب و گِل سدا بروں رہے
نہ ہر وصالِ آب و گِل سے کوئی جام یا سبو ہی نہ بن سکا
جو اِن کا ایک واہمہ ہی بن سکے تو بن سکے!

جہاں زاد،
ایک تو اور ایک وہ اور ایک مَیں
یہ تین زاویے کسی مثلثِ قدیم کے
ہمیشہ گھومتے رہے
کہ جیسے میرا چاک گھومتا رہا
مگر نہ اپنے آپ کا کوئی سراغ پا سکے
مثلثِ قدیم کو مَیں توڑ دوں، جو تو کہے، مگر نہیں
جو سحر مجھ پہ چاک کا وہی ہے اِس مثلثِ قدیم کا
نگاہیں میرے چاک کی جو مجھ کو دیکھتی ہیں
گھومتے ہوئے
سبو و جام پر ترا بدن، ترا ہی رنگ، تیری نازکی
برس پڑی
وہ کیمیا گری ترے جمال کی برس پڑی
مَیں سَیل ِ نُور ِ اندروں سے دھُل گیا!
مرے دروں کی خلق یوں گلی گلی نکل پڑی
کہ جیسے صبح کی اذاں سنائی دی!
تمام کوزے بنتے بنتے “تُو“ ہی بن کے رہ گئے
نشاط اِس وصالِ رہ گزر کی ناگہاں مجھے نگل گئی
یہی پیالہ و صراحی و سبو کا مرحلہ ہے وہ
کہ جب خمیر ِ آب و گِل سے وہ جدا ہوئے
تو اُن کو سمتِ راہِ نَو کی کامرانیاں ملیں
(مَیں ایک غریب کوزہ گر
یہ انتہائے معرفت
یہ ہر پیالہ و صراحی و سبو کی انتہائے معرفت
مجھے ہو اس کی کیا خبرِ؟)

جہاں زاد،
انتظار آج بھی مجھے ہی کیوں وہی مگر
جو نو برس کے دور ِ نا سزا میں تھا؟

اب انتظار آنسوؤں کے دجلہ کا
نہ گمرہی کی رات کا
(شبِ گُنہ کی لذّتوں کا اتنا ذکر کر چکا
وہ خود گناہ بن گئیں!)
حلب کی کارواں سرا کے حوض کا، نہ موت کا
نہ اپنی اس شکست خوردہ ذات کا
اِک انتظار ِ بے زماں کا تار ہے بندھا ہوا!
کبھی جو چند ثانیے زمانِ بے زماں میں آکے رک گئے
تو وقت کا یہ بار میرے سر سے بھی اُتر گیا
تمام رفتہ و گزشتہ صورتوں، تمام حادثوں
کے سست قافلے

مِرے دروں میں جاگ اُٹھے
مرے دروں میں اِک جہانِ بازیافتہ کی ریل پیل جاگ اُٹھی
بہشت جیسے جاگ آُٹھے خدا کے لا شعور میں!
مَیں جاگ اٹھا غنودگی کی ریت پر پڑا ہُوا
غنودگی کی ریت پر پڑے ہوئے وہ کوزے جو
مرے وجود سے بروں
تمام ریزہ ریزہ ہو کے رہ گئے تھے
میرے اپنے آپ سے فراق میں،
وہ پھر سے ایک کُل بنے (کسی نوائے ساز گار کی طرح)
وہ پھر سے ایک رقص ِ بے زماں بنے
وہ روئتِ ازل بنے!

Hassan Koozagar 2


حَسَن کوزہ گر- ٢ (ن م راشد) 
اے جہاں زاد،
نشاط اس شبِ بے راہ روی کی
میں کہاں تک بھولوں؟
زور ِ مَے تھا، کہ مرے ہاتھ کی لرزش تھی
کہ اس رات کوئی جام گرا ٹوٹ گیا

تجھے حیرت نہ ہوئی!
کہ ترے گھر کے دریچوں کے کئ شیشوں پر
اس سے پہلے کی بھی درزیں تھیں بہت __
تجھے حیرت نہ ہوئی!

اے جہاں زاد،
میں کوزوں کی طرف، اپنے تغاروں کی طرف
اب جو بغداد سے لوٹا ہوں،
تو مَیں سوچتا ہوں _____
سوچتا ہوں: تو مرے سامنے آئینہ رہی
سر ِ بازار، دریچے میں، سر ِبستر ِ سنجاب کبھی
تو مرے سامنے آئینہ رہی،
جس میں کچھ بھی نظر آیا نہ مجھے
اپنی ہی صورت کے سوا
اپنی تنہائی ِ جانکاہ کی دہشت کے سوا!
لکھ رہا ہوں تجھے خط
اور وہ آئینہ مرے ہاتھ میں ہے
اِس میں کچھ بھی نظر آتا نہیں
اب ایک ہی صورت کے سوا!
لکھ رہا ہوں تجھے خط
اور مجھے لکھنا بھی کہاں آتا ہے؟
لوح آئینہ پہ اشکوں کی پھواروں ہی سے
خط کیوں نہ لکھوں؟

اے جہاں زاد،
نشاط اس شبِ بے راہ روی کی
مجھے پھر لائے گی؟
وقت کیا چیز ہے تو جانتی ہے؟
وقت اِک ایسا پتنگا ہے
جو دیواروں پہ آئینوں پہ،
پیمانوں پہ شیشوں پہ،
مرے جام و سبو، میرے تغاروں پہ
سدا رینگتا ہے

رینگتے وقت کے مانند کبھی
لوٹ آئے گا حَسَن کوزہ گر ِ سوختہ جاں بھی شاید!

اب جو لوٹا ہوں جہاں زاد،
تو میں سوچتا ہوں:
شاید اس جھونپڑے کی چھت پہ یہ مکڑی مری محرومی کی
جسے تنتی چلی جاتی ہے، وہ جالا تو نہیں ہوں مَیں بھی؟
یہ سیہ جھونپڑا مَیں جس میں پڑا سوچتا ہوں
میرے افلاس کے روندے ہوئے اجداد کی
بس ایک نشانی ہے یہی
ان کے فن، ان کی معیشت کی کہانی ہے یہی
مَیں جو لوٹا ہوں تو وہ سوختہ بخت
آکے مجھے دیکھتی ہے
دیر تک دیکھتی رہ جاتی ہے
میرے اس جھونپڑے میں کچھ بھی نہیں
کھیل اِک سادہ محبّت کا
شب و روز کے اِس بڑھتے ہوئے کھوکلے پن میں جو کبھی
کھیلتے ہیں
کبھی رو لیتے ہیں مل کر، کبھی گا لیتے ہیں،
اور مل کر کبھی ہنس لیتے ہیں
دل کے جینے کے بہانے کے سوا
حرف سرحد ہیں، جہاں زاد، معانی سرحد
عشق سرحد ہے، جوانی سرحد
اشک سرحد ہیں، تبسّم کی روانی سرحد
دل کے جینے کے بہانے کے سوا اور نہیں
(دردِ محرومی کی،
تنہائی کی سرحد بھی کہیں ہے کہ نہیں؟)

میرے اِس جھونپڑے میں کتنی ہی خوشبوئیں ہیں
جو مرے گرد سدا رینگتی ہیں
اسی اِک رات کی خوشبو کی طرح رینگتی ہیں
در و دیوار سے لپٹی ہوئی اِس گرد کی خوشبو بھی ہے
میرے افلاس کی، تنہائی کی،
یادوں، تمنّاؤں کی خوشبو ئیں بھی،
پھر بھی اِس جھونپڑے میں کچھ بھی نہیں ___
یہ مرا جھونپڑا تاریک ہے، گندہ ہے، پراگندہ ہے
ہاں، کبھی دور درختوں سے پرندوں کے صدا آتی ہے
کبھی انجیروں کے، زیتونوں کے باغوں کی مہک آتی ہے
تو مَیں جی اٹھتا ہوں
تو مَیں کہتا ہوں کہ لو آج نہا کر نکلا!
ورنہ اِس گھر میں کوئی سیج نہیں، عطر نہیں ہے،
کوئی پنکھا بھی نہیں،
تجھے جس عشق کی خو ہے
مجھے اس عشق کا یارا بھی نہیں!

تو ہنسے گی، اے جہاں زاد، عجب بات
کہ جذبات کا حاتم بھی مَیں
اور اشیا کا پرستار بھی مَیں
اور ثروت جو نہیں اس کا طلب گار بھی مَیں!
تو جو ہنستی رہی اس رات تذبذب پہ مرے
میری دو رنگی پہ پھر سے ہنس دے!
عشق سے کس نے مگر پایا ہے کچھ اپنے سوا؟
اے جہاں زاد،
ہے ہر عشق سوال ایسا کہ عاشق کے سوا
اس کا نہیں کوئی جواب
یہی کافی ہے کہ باطن کے صدا گونج اٹھے!

اے جہاں زاد
مرے گوشہء باطن کی صدا ہی تھی
مرے فن کی ٹھٹھرتی ہوئی صدیوں
کے کنارے گونجی
تیری آنکھوں کے سمندر کا کنارا ہی تھا
صدیوں کا کنارا نکلا
یہ سمندر جو مری ذات کا آئینہ ہے
یہ سمندر جو مرے کوزوں کے بگڑے ہوئے،
بنتے ہوئے سیماؤں کا آئینہ ہے
یہ سمندر جو ہر اِک فن کا
ہر اِک فن کے پرستار کا
آئینہ ہے

Hassan Koozagar 1


حسن کوزہ گر -١  (ن م راشد)

جہاں زاد، نیچے گلی میں ترے در کے آگے
یہ میں سوختہ سر حسن کوزہ گر ھوں!
تجھے صبح بازار میں بوڑھے عطّار یوسف
کی دکّان پر میں نے دیکھا
تو تیری نگاھوں میں وہ تابناکی
تھی میں جس کی حسرت میں نو سال دیوانہ پھرتا رہا ھوں
جہاں زاد، نو سال دیوانہ پھرتا رھا ھوں!
یہ وہ دور تھا جس میں میں نے
کبھی اپنے رنجور کوزوں کی جانب
پلٹ کر نہ دیکھا
وہ کوزے مرے دست چابک کے پتلے
گل و رنگ و روغن کی مخلوق بے جاں
وہ سر گوشیوں میں یہ کہتے
"حسن کوزہ گر اب کہاں ھے
وہ ہم سے خود اپنے عمل سے
خداوند بن کر خداؤں کے مانند ھے روئے گرداں!"
جہاں زاد نو سال کا دور یوں مجھ پہ گزرا
کہ جیسے کسی شہر مدفون پر وقت گزرے
تغاروں میں مٹی
کبھی جس کی خوشبو سے وارفتہ ھوتا تھا میں
سنگ بستہ پڑی تھی
صراحی و مینا و جام و سبو اور فانوس و گلداں
مری ہیچ مایہ معیشت کے، اظہار فن کے سہارے
شکستہ پڑے تھے

میں خود، میں حسن کوزہ گر پا بہ گل خاک بر سر برھنہ
سر چاک ژولیدہ مو، سر بزانو
کسی غمزدہ دیوتا کی طرح واہمہ کے
گل و لا سے خوابوں کے سیّال کوزے بناتا رہا تھا
جہاں زاد، نو سال پہلے
تو ناداں تھی لیکن تجھے یہ خبر تھی
کہ میں نے، حسن کوزہ گر نے
تری قاف کی سی افق تاب آنکھوں
میں دیکھی ھے وہ تابناکی
کہ جس سے مرے جسم و جاں، ابرو مہتاب کا
رھگزر بن گئے تھے
جہاں زاد بغداد کی خواب گوں رات
وہ رود دجلہ کا ساحل
وہ کشتی وہ ملّاح کی بند آنکھیں
کسی خستہ جاں رنج بر کوزہ گر کے لیے
ایک ہی رات وہ کہربا تھی
کہ جس سے ابھی تک ھے پیوست اسکا وجود
اس کی جاں اس کا پیکر
مگر ایک ہی رات کا ذوق دریا کی وہ لہر نکلا
حسن کوزہ گر جس میں ڈوبا تو ابھرا نہیں ھے!
جہاں زاد اس دور میں روز، ہر روز
وہ سوختہ بخت آکر
مجھے دیکھتی چاک پر پا بہ گل سر بزانو
تو شانوں سے مجھ کو ہلاتی 
(وہی چاک جو سالہا سال جینے کا تنہا سہارا رہا تھا!)
وہ شانوں سے مجھ کو ہلاتی
"حسن کوزہ گر ھوش میں  آ
حسن اپنے ویران گھر پر نظر کر
یہ بچّوں کے تنّور کیونکر بھریں گے
حسن 'اے محبّت کے مارے
محبّت امیروں کی بازی'
حسن، اپنے دیوار و در پر نظر کر"
مرے کان میں یہ نوائے حزیں یوں تھی جیسے
کسی ڈوبتے شخص کو زیرگرداب کوئی پکارے!
وہ اشکوں کے انبار پھولوں کے انبار تھے ہاں
مگر میں حسن کوزہ گر شہر اوہام کے ان
خرابوں کا مجذوب تھا جن
میں کوئی صدا کوئی جنبش
کسی مرغ پرّاں کا سایہ
کسی زندگی کا نشاں تک نہیں تھا!

جہاں زاد، میں آج تیری گلی میں
یہاں رات کی سرد گوں تیرگی میں
ترے در کے آگے کھڑا ھوں
سرو  مو پریشاں
دریچے سے وہ قاف کی سی طلسمی نگاھیں
مجھے آج پھر جھانکتی ھیں
زمانہ، جہاں زاد وہ چاک ھے جس پہ مینا و جام و سبو
اور فانوس و گلداں
کے مانند بنتے بگڑتے ہیں انساں
میں انساں ھوں لیکن
یہ نو سال جو غم کے قالب میں گزرے!
حسن کوزہ گر آج اک تودہ خاک ھے جس
میں نم کا اثر تک نہیں ھے
جہاں زاد بازار میں صبح عطّار یوسف
کی دکّان پر تیری آنکھیں
پھر اک بار کچھ کہہ گئی ہیں
ان آنکھوں کی تابندہ شوخی
سے اٹھی ھے پھر تودہ خاک میں نم کی ہلکی سی لرزش
یہی شاید اس خاک کو گل بنا دے!

تمنّا کی وسعت کی کس کو خبر ھے جہاں زاد لیکن
تو چاھے تو بن جاؤں میں پھر
وہی کوزہ گر جس کے کوزے
تھے ھر کاخ و کو اور ھر شہر و قریہ کی نازش
تھے جن سے امیر و گدا کے مساکن درخشاں

تمنّا کی وسعت کی کس کو خبر ھے جہاں زاد لیکن
تو چاھے تو میں پھر پلٹ جاؤں ان اپنے مہجور کوزوں کی جانب
گل و لا کے سوکھے تغاروں کی جانب
معیشت کے اظہار فن کے سہاروں کی جانب
کہ میں اس گل و لا سے ، اس رنگ و روغن
سے پھر وہ شرارے نکالوں کہ جن سے
دلوں کے خرابے ھوں روشن!



Wednesday, 9 October 2013

کبھی تو آسماں سے چاند اترے جام ہو جاۓ
تمہارے نام کی ایک خوب صورت شام ہو جاۓ
میں خود بھی احتیاطً اس گلی سے کم گزرتا ہوں
کویٔ معصوم کیوں میر
ے لیۓ بدنام ہو جاۓ
ہمیں معلوم ھے اس کا ٹھکانہ پھر کہاں ہوگا
پرندہ آسماں چھونے میں جب ناکام ہو جاۓ
اجالے اپنی ےیادوں کے ہمارے ساتھ رہنے دو
نہ جانے کس گلی میں زندگی کی شام ہو جاۓ
(بشیر بدر)

Design Poetry




Tuesday, 8 October 2013

یہ تیرا جمالِ کامل یہ شباب کا زمانہ
دلِ دُشمناں سلامت دلِ دوستاں نشانہ
میں ہوں اُس مقام پر اب کہ فراق و وصال کیسے
میرا عشق بھی کہانی تیرا حُسن بھی فسانہ
میری زندگی تو گزری تیرے ہجر کے سہارے
میری موت کو بھی پیارے کویٔ چاھیۓ بہانہ
تیرے عشق کی کرامت یہ اگر نہیں تو کیا ھے؟
کبھی بے ادب نہ گزرا میرے پاس سے زمانہ
میں وہ صاف ہی نا کہ دوں جو ھے فرق مجھ میں تجھ میں
میرا درد، دردِ تنہا تیرا غم، غمِ زمانہ
تیرے دل کے ٹوٹنے پر ھے کسی کو ناز کیا کیا
تجھے اے جگرؔ مبارک یہ شکستِ فاتحانہ
وہ اداۓ دلبری ہو کہ نواۓ عاشقانہ
جو دلوں کو فتح کر لے وہی فاتحِ زمانہ
کبھی حُسن کی طبیعت نا بدل سکا زمانہ
وہی نازِبےنیازی، وہی شانِ خسرووانہ
تیری دوری وحضوری سے ہے کچھ عجیب عالَم
ابھی زندگی حقیقت ابھی زندگی فسانہ
میرے ہم سفیر بلبل، میرا تیرا ساتھ ھی کیا
میں ضمیر دشت و دریا، تو اسیرِآشیانہ
  گزرتے لمحوں!
مجھے بتاؤ زندگی کا اصول کیا ہے
تمام ہاتھوں میں آئینے ہیں
کون کس سے چھپتا ہے
اگر صدا کا وجود کانوں سے منسلک ہے
تو کون خوشبو بن کر بولتا ہے
اگر سمندر کی حد ساحل ہے
تو کون آنکھوں میں پھیلتا ہے
تمام چیزیں اگر ملتی ہیں
تو کون چیزوں سے ماورا ہے
کِسے خبر ۔۔۔ بدلتی رُت نے پرانے پتوں سے کیا کہا
یہ کون بادل سے پوچھے کہ اتنے سال کہاں رہا
یہ جو آج دیکھا ہے وہ کل نہ ہوگا
کوئی لمحہ اٹل نہ ہوگا
گزرتے ہوئے لمحو! 
مجھے بتاؤ زندگی کا اصول کیا ہے
(امجد اسلام امجدؔ)
 میرے چارہ گر

 
یہ جو زخم ، زخم سے خواب ہیں، یہ جو رات ہے میرے چار سو
مرے بےخبر ، مرے بےنشاں ، میں تھا کس نگر ، تو رھا کہاں

کہ زماں ، مکاں کی یہ وسعتیں ، تجھے دیکھنے کو ترس گئیں
وہ مرے نصیب کی بارشیں ، کسی اور چھت پر برس گئیں
تو میرے سفر کا شریک ہے ، نہیں ھمسفر ، نہیں ھمسفر !
میرے چارہ گر ، میرے چارہ گر ، میرے درد کی تجھے کیا خبر

وہ جو ھاتھ بھر کا تھا فاصلہ ، کئی موسموں میں بدل گیا
اسے ناپتے ، اسے کاٹتے ، میرا سارا وقت نکل گیا
نہیں جس پہ نشان پا ، میرے سامنے ہے وہ راہگزر

میرے چارہ گر ، میرے چارہ گر ، میرے درد کی تجھے کیا خبر
یہ جو زخم ، زخم سے خواب ہیں، یہ جو رات ہے میرے چارسو

یہ جو بےبسی کا ہے قافلہ ، سبھی راستوں میں رکا ہوا
نہیں کچھ بھی تجھ سے چھپا ہوا ،اسے حکم دے ، یہ کرے سفر
میرے چارہ گر ، میرے چارہ گر ، میرے درد کی تجھے کیا خبر
انتہا ھے  خدا شناسی کی
 
  
انتہا ھے  خدا شناسی کی
بے نیازِ خدا رھا ہوں میں
رہنما کچھ پتا تو چلنے دے
آ رہا ہو
ں کہ جا رہا ہوں میں
کتنی پختہ ھے میری نادانی
تجھ کو تجھ سے چھپا رہا ہوں میں
علم خود تھک چکا مگر اب تک
پڑھ رہا ہوں پڑھا رہا ہوں میں
تجھ کو کیا علم کتنی مدت سے
تیرے لہجے چرا رہا ہوں میں
اُن کو ملنے کی آرزو میں عدمؔ
اپنے نزدیک آ رہا
ہوں میں

(عبدالحمیدعدمؔ)