Tuesday, 8 October 2013

 میرے چارہ گر

 
یہ جو زخم ، زخم سے خواب ہیں، یہ جو رات ہے میرے چار سو
مرے بےخبر ، مرے بےنشاں ، میں تھا کس نگر ، تو رھا کہاں

کہ زماں ، مکاں کی یہ وسعتیں ، تجھے دیکھنے کو ترس گئیں
وہ مرے نصیب کی بارشیں ، کسی اور چھت پر برس گئیں
تو میرے سفر کا شریک ہے ، نہیں ھمسفر ، نہیں ھمسفر !
میرے چارہ گر ، میرے چارہ گر ، میرے درد کی تجھے کیا خبر

وہ جو ھاتھ بھر کا تھا فاصلہ ، کئی موسموں میں بدل گیا
اسے ناپتے ، اسے کاٹتے ، میرا سارا وقت نکل گیا
نہیں جس پہ نشان پا ، میرے سامنے ہے وہ راہگزر

میرے چارہ گر ، میرے چارہ گر ، میرے درد کی تجھے کیا خبر
یہ جو زخم ، زخم سے خواب ہیں، یہ جو رات ہے میرے چارسو

یہ جو بےبسی کا ہے قافلہ ، سبھی راستوں میں رکا ہوا
نہیں کچھ بھی تجھ سے چھپا ہوا ،اسے حکم دے ، یہ کرے سفر
میرے چارہ گر ، میرے چارہ گر ، میرے درد کی تجھے کیا خبر

No comments:

Post a Comment