Tuesday, 29 October 2013

عشق تاثیر سے نو مید نہیں



عشق تاثیر سے نو مید نہیں 
جاں سپاری شجر بید نہیں 

سلطنت دست بہ دست آئی  ہے 
جام مے خاتم جمشید نہیں 

ہے تجلی تیری سامان وجود 
زرہ بے پرتو خورشید نہیں 

راز معشوق نہ رسوا ہو جائے 
ورنہ مر جانے میں کچھ بھید نہیں 

گردش رنگ طرب سے ڈر ہے 
غم محرومئ جاوید نہیں 

کہتے ہیں جیتے ہیں امید پہ  لوگ 
ہم کو جینے کی بھی امید نہیں 

(غالب )

No comments:

Post a Comment