عشق تاثیر سے نو مید نہیں
جاں سپاری شجر بید نہیں
سلطنت دست بہ دست آئی ہے
جام مے خاتم جمشید نہیں
ہے تجلی تیری سامان وجود
زرہ بے پرتو خورشید نہیں
راز معشوق نہ رسوا ہو جائے
ورنہ مر جانے میں کچھ بھید نہیں
گردش رنگ طرب سے ڈر ہے
غم محرومئ جاوید نہیں
کہتے ہیں جیتے ہیں امید پہ لوگ
ہم کو جینے کی بھی امید نہیں
(غالب )
No comments:
Post a Comment