Phir mauj-e-hawa pehchaan ay Meer nazar aayi......Shayed ke bahaar aayi zanjeer nazar aayi.....!!
Monday, 16 December 2013
Sawan Main Ghabra Jata Hai
ساون میں گھبرا جاتا ہے
دل میرا صحرا جاتا ہے
الف سمجھ میں آجاوے تو
سب کچھ پڑھنا آ جاتا ہے
برف کا اک اک آنسو پی کر
دریا وجد میں آتا ہے
اصل سفر ہے وہاں سے آگے
جہاں تلک راستہ جاتا ہے
لڑکی میلے میں تنہا تھی
سوچ کے دل بیٹھا جاتا ہے
جب میں جنگل ہو جاتا ہوں
مور ناچنے آ جاتا ہے
شاید اس نے دستک سن لی
دیکھو در کھلتا جاتا ہے
نیند کے بین بجاتے ہی اشکؔ
بستر میں سانپ آ جاتا ہے
(پروین کمار اشکؔ)
December Ki Akhri Shab
آج دسمبر کی آخری شب میں
شب تنہایی میں
اپنے ٹیرس پہ کھڑی کافی دیر سے میں
چودھویں کے چاند کو دیکھ رہی تھی
جس کی چاندنی میں
میں بھیگ گئی تھی
اتنی ڈوب گئی تھی
کہ مجھے خبر بھی نہ ہو سکی
کہ کب
اس نے میری بکھری زلفوں کو سمیٹا تھا
اور!
چھپ کے سے کانوں میں سرگوشی کی تھی
اپنی محبت کا اظہار کیا تھا
مجھے عہد وفا میں باندھ کر گیا تھا
وہ لمحہ اتنا حسین تھا
کہ!
حیا سے میری پلکیں جھک سی گئی تھیں
میں اپنے آپ میں سمٹ سی گئی تھی
پچھلے سال دسمبر کی آخری شب ایسی ہی تھی
اور آج بھی دسمبر کی آخری شب ہے
اور میں
یہ سوچ رہی ہوں کہ!!!
آج وہ کس کے ساتھ ہوگا...؟
کہ آج وہ...
کس کواپنی وفا کا یقین دلا رہا ہوگا...؟؟
بچپن کا دسمبر
بچپن کا وہ دسمبر
ٹھٹھرتی ڈھلتی شاموں میں
آنگن کی دیوار سے سرکتی دھوپ
جلتے ہوئے کوئلے کی مہک
اور میرے پھٹے ہوئے گالوں پر
لکیریں بناتے
وہ جمے ہوئے آنسو...
آسمان پر جمتی، وہ بادلوں کی دھند دیکھ کر
امی کا دروازے میں کھڑے ہو کر پکارنا
اور ہم سب کا مٹی بھر کنچے سنبھال کر
اپنے اپنے گھروں کو بھاگنا...
رات بھر چپ چپ کر
آسمان کو دیکھ
برف دیکھنے کی دعا کرنا
اور صبح پھوٹتے ہی
صحن میں گرتی برف کے ستارے چننا
اور برف گراتے آسماں کو دیکھ دیکھ
خود کو بھی برف کے گالوں کے ساتھ
اڑتے ہوئے محسوس کرنا
پھر تم آ گیئں...
اور بچپن کا دسمبر بیت گیا
تب پہروں اس سرکتی دھوپ تلے
اور ان ٹھٹھرتی شاموں میں
میں تمہاری ایک جھلک دیکھنے کے لئے
آسماں سے گرتی برف کی چاندنی
اپنے وجود پر سجاتا رہا اور
زمین پر بچھی اس سفید چادر پر
میرے قدموں کا ہر نشان
تمہارے گھر کی دہلیز تک ہی جاتا رہا
پھر وو دسمبر بھی بیت گیا
اور دیکھو...
میں اب بھی گلی کے اسی نکڑ پر کھڑا ہوں
ٹھٹھرتی ڈھلتی شام بھی ہے
پر سنہری دھوپ نہیں سرکتی
وقت جیسے تھم سا گیا ہے
برف کے ستارے میرے بالوں میں
چاندنی بکھیر تو رہے ہیں
پر انھیں بھگو نہیں پاتے
یہ کیسی برفیلی شام ہے
جس کی سردی میرے آنسو جما نہیں پا رہی
جلتے کوئلوں کا دھواں
آنکھ تو جلاتا ہے
پر اس میں وہ مہک نہیں ہے
اور دیکھو میرے گھر کا دروازہ...
پٹ کھولے کھڑا تو ہے لیکن
امی کی ڈانٹ نجانے کہاں کھو گی ہے؟
تمہارے گھر کی طرف جاتے سبھی راستے
اس قدر سنسان کیوں پڑے ہیں؟
اس برفیلی شام میں
اور
میرے بچپن کے دسمبر میں
کتنا فرق ہے
(ہاشم ندیم خان )
Saturday, 23 November 2013
خود کشی
کر چکا ہوں آج عزمِ آخری____
شام سے پہلے ہی کر دیتا تھا میں
چاٹ کر دیوار کو نوکِ زباں سے ناتواں
صبح ہونے تک وہ ہو جاتی تھی دوبارہ بلند
رات کو جب گھر کا رخ کرتا تھا میں
تیرگی کو دیکھتا تھا سرنگوں
منہ بسورے، رہگزاروں سے لپٹتے، سوگوار
گھر پہنچتا تھا میں انسانوں سے اُکتایا ہوا
میرا عزمِ آخری یہ ہے کہ میں
کود جاؤں ساتویں منزل سے آج!
آج میں نے پا لیا ہے زندگی کو بے نقاب!
آتا جاتا تھا بڑی مدت سے میں
ایک عشوہ ساز و ہرزہ کار محبوبہ کے پاس
اُس کے تختِ خواب کے نیچے مگر
آج میں نے دیکھ پایا ہے لہو
تازہ و رخشاں لہو،
بوئے مَے میں بوئے خوں الجھی ہوئی!
وہ ابھی تک خواب گہ میں لوٹ کر آئی نہیں
اور میں کر بھی چکا ہوں اپنا عزمِ آخری!
جی میں آئی ہے لگا دوں ایک بے باکانہ جست
اس دریچے میں سے جو
جھانکتا ہے ساتویں منزل سے کوئے بام کو!
شام سے پہلے ہی کر دیتا تھا میں
چاٹ کر دیوار کو نوکِ زباں سے ناتواں
صبح ہونے تک وہ ہو جاتی تھی دوبارہ بلند
آج تو آخر ہم آغوشِ زمیں ہو جائے گی!
صبح ہونے تک وہ ہو جاتی تھی دوبارہ بلند
رات کو جب گھر کا رخ کرتا تھا میں
تیرگی کو دیکھتا تھا سرنگوں
منہ بسورے، رہگزاروں سے لپٹتے، سوگوار
گھر پہنچتا تھا میں انسانوں سے اُکتایا ہوا
میرا عزمِ آخری یہ ہے کہ میں
کود جاؤں ساتویں منزل سے آج!
آج میں نے پا لیا ہے زندگی کو بے نقاب!
آتا جاتا تھا بڑی مدت سے میں
ایک عشوہ ساز و ہرزہ کار محبوبہ کے پاس
اُس کے تختِ خواب کے نیچے مگر
آج میں نے دیکھ پایا ہے لہو
تازہ و رخشاں لہو،
بوئے مَے میں بوئے خوں الجھی ہوئی!
وہ ابھی تک خواب گہ میں لوٹ کر آئی نہیں
اور میں کر بھی چکا ہوں اپنا عزمِ آخری!
جی میں آئی ہے لگا دوں ایک بے باکانہ جست
اس دریچے میں سے جو
جھانکتا ہے ساتویں منزل سے کوئے بام کو!
شام سے پہلے ہی کر دیتا تھا میں
چاٹ کر دیوار کو نوکِ زباں سے ناتواں
صبح ہونے تک وہ ہو جاتی تھی دوبارہ بلند
آج تو آخر ہم آغوشِ زمیں ہو جائے گی!
(ن م راشد )
Tuesday, 29 October 2013
عشق تاثیر سے نو مید نہیں
عشق تاثیر سے نو مید نہیں
جاں سپاری شجر بید نہیں
سلطنت دست بہ دست آئی ہے
جام مے خاتم جمشید نہیں
ہے تجلی تیری سامان وجود
زرہ بے پرتو خورشید نہیں
راز معشوق نہ رسوا ہو جائے
ورنہ مر جانے میں کچھ بھید نہیں
گردش رنگ طرب سے ڈر ہے
غم محرومئ جاوید نہیں
کہتے ہیں جیتے ہیں امید پہ لوگ
ہم کو جینے کی بھی امید نہیں
(غالب )
کہو اک دن
کہو اک دن !
کہ جو کچھ بھی ہمارے پاس ہے
سب کچھ تمہارا ہے....
کہو اک دن !
ستارہ سی جنھیں کہتے ہو
وہ آنکھیں تمہاری ہیں
جنھیں تم شاخ سی کہتے ہو
وہ بانہیں تمہاری ہیں
جنھیں تم پھول سی کہتے ہو
وہ باتیں تمہاری ہیں
کہ جو کچھ بھی ہمارے پاس ہے
سب کچھ تمہارا ہے...
اگر سب کچھ یہ میرا ہے تو
سب کچھ بخش دو اک دن
وجود اپنا مجھے تم دے دو
محبت دو اک دن
میرے ہاتھوں پہ اپنے ہاتھ رکھ کر
روح کھینچھ لو اک دن....
کہو اک دن !
کہ جو کچھ بھی ہمارے پاس ہے
سب کچھ تمہارا ہے.....
کہ جو کچھ بھی ہمارے پاس ہے
سب کچھ تمہارا ہے....
کہو اک دن !
ستارہ سی جنھیں کہتے ہو
وہ آنکھیں تمہاری ہیں
جنھیں تم شاخ سی کہتے ہو
وہ بانہیں تمہاری ہیں
جنھیں تم پھول سی کہتے ہو
وہ باتیں تمہاری ہیں
کہ جو کچھ بھی ہمارے پاس ہے
سب کچھ تمہارا ہے...
اگر سب کچھ یہ میرا ہے تو
سب کچھ بخش دو اک دن
وجود اپنا مجھے تم دے دو
محبت دو اک دن
میرے ہاتھوں پہ اپنے ہاتھ رکھ کر
روح کھینچھ لو اک دن....
کہو اک دن !
کہ جو کچھ بھی ہمارے پاس ہے
سب کچھ تمہارا ہے.....
شہر کے دکاندارو
شہر کے دکاندارو !!
کاروبار الفت میں
سود کیا زیاں کیا ہے؟؟؟
تم نہ جان پاؤ گے.......!!!
دل کے دام کتنے ہیں
خواب کتنے مہنگے ہیں
اور نقد جاں کیا یے؟؟؟؟؟؟
تم نہ جان پاؤ گے.......!!!
کوئی کیسے ملتا ہے
پھول کیسے کِھلتا ہے
آنکھ کیسے جھکتی ہے
سانس کیسے رکتی ہے
کیسے راہ نکلتی ہے
کیسے بات چلتی ہے
شوق کی زباں کیا ہے؟؟؟
تم نہ جان پاؤ گے........!!!!
شھر کے دکاندارو، شھر کے دکاندارو !!!!!
وصل کا سکوں کیا ہے؟؟؟
ہجر کا جنوں کیا ہے؟؟؟
حسن کا فسوں کیا ہے؟؟؟
عشق کے دروں کیا ہے؟؟؟
تم مریض دانائی
مصلحت کے شیدائی
راہ گمراھاں کیا ہے؟؟؟
تم نہ جان پاؤ گے........!!!!
زخم کیسے جلتے ہیں؟؟؟
داغ کیسے جلتے ہیں؟؟؟
درد کیسے ہوتا ہے؟؟؟
کوئی کیسے روتا ہے؟؟؟
اشک کیا ہے نالے کیا؟؟؟
دشت کیا چھالے کیا؟؟؟
آہ کیا فغاں کیا ہے؟؟؟
تم نہ جان پاؤ گے..........!!!
جانتا ہوں میں تم کو
ذوق شاعری بھی ہے
شخصیت سجانے میں
اک یہ ماہری بھی ہے
پھر بھی حرف چنتے ہو
صرف لفظ سنتے ہو
ان کے درمیان کیا ہے؟؟؟
تم نہ جان پاؤ گے............!!!
شہر کے دکاندارو !!
کاروبار الفت میں
سود کیا زیاں کیا ہے؟؟؟
تم نہ جان پاؤ گے.........!!!
کاروبار الفت میں
سود کیا زیاں کیا ہے؟؟؟
تم نہ جان پاؤ گے.......!!!
دل کے دام کتنے ہیں
خواب کتنے مہنگے ہیں
اور نقد جاں کیا یے؟؟؟؟؟؟
تم نہ جان پاؤ گے.......!!!
کوئی کیسے ملتا ہے
پھول کیسے کِھلتا ہے
آنکھ کیسے جھکتی ہے
سانس کیسے رکتی ہے
کیسے راہ نکلتی ہے
کیسے بات چلتی ہے
شوق کی زباں کیا ہے؟؟؟
تم نہ جان پاؤ گے........!!!!
شھر کے دکاندارو، شھر کے دکاندارو !!!!!
وصل کا سکوں کیا ہے؟؟؟
ہجر کا جنوں کیا ہے؟؟؟
حسن کا فسوں کیا ہے؟؟؟
عشق کے دروں کیا ہے؟؟؟
تم مریض دانائی
مصلحت کے شیدائی
راہ گمراھاں کیا ہے؟؟؟
تم نہ جان پاؤ گے........!!!!
زخم کیسے جلتے ہیں؟؟؟
داغ کیسے جلتے ہیں؟؟؟
درد کیسے ہوتا ہے؟؟؟
کوئی کیسے روتا ہے؟؟؟
اشک کیا ہے نالے کیا؟؟؟
دشت کیا چھالے کیا؟؟؟
آہ کیا فغاں کیا ہے؟؟؟
تم نہ جان پاؤ گے..........!!!
جانتا ہوں میں تم کو
ذوق شاعری بھی ہے
شخصیت سجانے میں
اک یہ ماہری بھی ہے
پھر بھی حرف چنتے ہو
صرف لفظ سنتے ہو
ان کے درمیان کیا ہے؟؟؟
تم نہ جان پاؤ گے............!!!
شہر کے دکاندارو !!
کاروبار الفت میں
سود کیا زیاں کیا ہے؟؟؟
تم نہ جان پاؤ گے.........!!!
Monday, 28 October 2013
Hassan Koozagar 4
حسن کوزہ گر - ٤ (ن م راشد )
جہاں زاد، کیسے ہزاروں برس بعد
اِک شہرِ مدفون کی ہر گلی میں
مرے جام و مینا و گُلداں کے ریزے ملے ہیں
کہ جیسے وہ اِس شہرِ برباد کا حافظہ ہوں!
(حَسَن نام کا اِک جواں کوزہ گر اِک نئے شہر میں
اپنے کوزے بناتا ہوا، عشق کرتا ہوا
اپنے ماضی کے تاروں میں ہم سے پرویا گیا ہے
ہمیں میں (کہ جیسے ہمیں ہوں) سمویا گیا ہے
کہ ہم تم وہ بارش کے قطرے تھے جو رات بھر سے،
(ہزاروں برس رینگتی رات بھر)
اِک دریچے کے شیشوں پہ گرتے ہوئے سانپ لہریں
بناتے رہے ہیں،
اور اب اس جگہ وقت کی صبح ہونے سے پہلے
یہ ہم اور یہ نوجواں کوزہ گر
ایک رویا میں پھر سے پروئے گئے ہیں! )
جہاں زاد ۔۔۔
یہ کیسا کہنہ پرستوں کا انبوہ
کوزوں کی لاشوں میں اُترا ہے
دیکھو!
یہ وہ لوگ ہیں جن کی آنکھیں
کبھی جام و مینا کی لِم تک نہ پہنچیں
یہی آج اس رنگ و روغن کی مخلوقِ بے جاں
کو پھر سے اُلٹنے پلٹنے لگے ہیں
یہ اِن کے تلے غم کی چنگاریاں پا سکیں گے
جو تاریخ کو کھا گئی تھیں؟
وہ طوفان، وہ آندھیاں پا سکیں گے
جو ہر چیخ کو کھا گئی تھیں؟
انہیں کیا خبر کِس دھنک سے مرے رنگ آئے
(مرے اور اِس نوجواں کُوزہ گر کے؟)
انہیں کیا خبر کون سی تتلیوں کے پروں سے؟
انہیں کیا خبر کون سے حُسن سے؟
کون سی ذات سے، کس خد و خال سے
میں نے کُوزوں کے چہرے اُتارے؟
یہ سب لوگ اپنے اسیروں میں ہیں
زمانہ، جہاں زاد، افسوں زدہ برج ہے
اور یہ لوگ اُس کے اسیروں میں ہیں
جواں کوزہ گر ہنس رہا ہے!
یہ معصوم وحشی کہ اپنے ہی قامت سے ژولیدہ دامن
ہیں جویا کسی عظمتِ نارسا کے
انہیں کیا خبر کیسا آسیبِ مبرم مرے غار سینے پہ تھا
جس نے مجھ سے (اور اِس کوزہ گر سے) کہا:
"اے حَسَن کوزہ گر، جاگ
دردِ رسالت کا روزِ بشارت ترے جام و مینا
کی تشنہ لبی تک پہنچنے لگا ہے!"
یہی وہ ندا، جس کے پیچھے حَسَن نام کا
یہ جواں کوزہ گر بھی
پیا پے رواں ہے زماں سے زماں تک،
خزاں سے خزاں تک!
جہاں زاد میں نے ۔۔۔ ۔۔ حَسَن کوزہ گر نے
بیاباں بیاباں یہ دردِ رسالت سہا ہے
ہزاروں برس بعد یہ لوگ
ریزوں کو چُنتے ہوئے
جان سکتے ہیں کیسے
کہ میرے گِل و خاک کے رنگ و روغن
ترے نازک اعضا کے رنگوں سے مل کر
ابد کی صدا بن گئے تھے؟
میں اپنے مساموں سے، ہر پور سے،
تیری بانہوں کی پنائیاں
جذب کرتا رہا تھا
کہ ہر آنے والے کی آنکھوں کے معبد پہ جا کر چڑھاؤں
یہ ریزوں کی تہذیب پا لیں تو پا لیں
حَسَن کوزہ گر کو کہاں لا سکیں گے؟
یہ اُس کے پسینے کے قطرے کہاں گن سکیں گے؟
یہ فن کی تجلی کا سایہ کہاں پا سکیں گے؟
جو بڑھتا گیا ہے زماں سے زماں تک
خزاں سے خزاں تک
جو ہر نوجواں کُوزہ گر کی نئی ذات میں
اور بڑھتا چلا جا رہا ہے!
وہ فن کی تجلی کا سایہ کہ جس کی بدولت
ہمہ عشق ہیں ہم
ہمہ کوُزہ گر ہم
ہمہ تن خبر ہم
خُدا کی طرح اپنے فن کے خُدا سر بسر ہم!
(آرزوئیں کبھی پایاب تو سَریاب کبھی،
تیرنے لگتے ہیں بے ہوشی کی آنکھوں میں کئی چہرے
جو دیکھے بھی نہ ہوں
کبھی دیکھے ہوں کسی نے تو سراغ اُن کا
کہاں سے پائے؟
کِس سے ایفا ہوئے اندوہ کے آداب کبھی
آرزوئیں کبھی پایاب تو سَریاب کبھی!)
یہ کوزوں کے لاشے، جو اِن کے لئے ہیں
کسی داستانِ فنا کے وغیرہ وغیرہ
ہماری اذاں ہیں، ہماری طلب کا نشاں ہیں
یہ اپنے سکوتِ اجل میں بھی یہ کہہ رہے ہیں:
"وہ آنکھیں ہمیں ہیں جو اندر کھُلی ہیں
تمہیں دیکھتی ہیں، ہر ایک درد کو بھانپتی ہیں
ہر اِک حُسن کے راز کو جانتی ہیں
کہ ہم ایک سنسان حجرے کی اُس رات کی آرزو ہیں
جہاں ایک چہرہ، درختوں کی شاخوں کے مانند
اِک اور چہرے پہ جھُک کر، ہر انسان کے سینے میں
اِک برگِ گُل رکھ گیا تھا
اُسی شب کا دزدیدہ بوسہ ہمیں ہیں!
جہاں زاد، کیسے ہزاروں برس بعد
اِک شہرِ مدفون کی ہر گلی میں
مرے جام و مینا و گُلداں کے ریزے ملے ہیں
کہ جیسے وہ اِس شہرِ برباد کا حافظہ ہوں!
(حَسَن نام کا اِک جواں کوزہ گر اِک نئے شہر میں
اپنے کوزے بناتا ہوا، عشق کرتا ہوا
اپنے ماضی کے تاروں میں ہم سے پرویا گیا ہے
ہمیں میں (کہ جیسے ہمیں ہوں) سمویا گیا ہے
کہ ہم تم وہ بارش کے قطرے تھے جو رات بھر سے،
(ہزاروں برس رینگتی رات بھر)
اِک دریچے کے شیشوں پہ گرتے ہوئے سانپ لہریں
بناتے رہے ہیں،
اور اب اس جگہ وقت کی صبح ہونے سے پہلے
یہ ہم اور یہ نوجواں کوزہ گر
ایک رویا میں پھر سے پروئے گئے ہیں! )
جہاں زاد ۔۔۔
یہ کیسا کہنہ پرستوں کا انبوہ
کوزوں کی لاشوں میں اُترا ہے
دیکھو!
یہ وہ لوگ ہیں جن کی آنکھیں
کبھی جام و مینا کی لِم تک نہ پہنچیں
یہی آج اس رنگ و روغن کی مخلوقِ بے جاں
کو پھر سے اُلٹنے پلٹنے لگے ہیں
یہ اِن کے تلے غم کی چنگاریاں پا سکیں گے
جو تاریخ کو کھا گئی تھیں؟
وہ طوفان، وہ آندھیاں پا سکیں گے
جو ہر چیخ کو کھا گئی تھیں؟
انہیں کیا خبر کِس دھنک سے مرے رنگ آئے
(مرے اور اِس نوجواں کُوزہ گر کے؟)
انہیں کیا خبر کون سی تتلیوں کے پروں سے؟
انہیں کیا خبر کون سے حُسن سے؟
کون سی ذات سے، کس خد و خال سے
میں نے کُوزوں کے چہرے اُتارے؟
یہ سب لوگ اپنے اسیروں میں ہیں
زمانہ، جہاں زاد، افسوں زدہ برج ہے
اور یہ لوگ اُس کے اسیروں میں ہیں
جواں کوزہ گر ہنس رہا ہے!
یہ معصوم وحشی کہ اپنے ہی قامت سے ژولیدہ دامن
ہیں جویا کسی عظمتِ نارسا کے
انہیں کیا خبر کیسا آسیبِ مبرم مرے غار سینے پہ تھا
جس نے مجھ سے (اور اِس کوزہ گر سے) کہا:
"اے حَسَن کوزہ گر، جاگ
دردِ رسالت کا روزِ بشارت ترے جام و مینا
کی تشنہ لبی تک پہنچنے لگا ہے!"
یہی وہ ندا، جس کے پیچھے حَسَن نام کا
یہ جواں کوزہ گر بھی
پیا پے رواں ہے زماں سے زماں تک،
خزاں سے خزاں تک!
جہاں زاد میں نے ۔۔۔ ۔۔ حَسَن کوزہ گر نے
بیاباں بیاباں یہ دردِ رسالت سہا ہے
ہزاروں برس بعد یہ لوگ
ریزوں کو چُنتے ہوئے
جان سکتے ہیں کیسے
کہ میرے گِل و خاک کے رنگ و روغن
ترے نازک اعضا کے رنگوں سے مل کر
ابد کی صدا بن گئے تھے؟
میں اپنے مساموں سے، ہر پور سے،
تیری بانہوں کی پنائیاں
جذب کرتا رہا تھا
کہ ہر آنے والے کی آنکھوں کے معبد پہ جا کر چڑھاؤں
یہ ریزوں کی تہذیب پا لیں تو پا لیں
حَسَن کوزہ گر کو کہاں لا سکیں گے؟
یہ اُس کے پسینے کے قطرے کہاں گن سکیں گے؟
یہ فن کی تجلی کا سایہ کہاں پا سکیں گے؟
جو بڑھتا گیا ہے زماں سے زماں تک
خزاں سے خزاں تک
جو ہر نوجواں کُوزہ گر کی نئی ذات میں
اور بڑھتا چلا جا رہا ہے!
وہ فن کی تجلی کا سایہ کہ جس کی بدولت
ہمہ عشق ہیں ہم
ہمہ کوُزہ گر ہم
ہمہ تن خبر ہم
خُدا کی طرح اپنے فن کے خُدا سر بسر ہم!
(آرزوئیں کبھی پایاب تو سَریاب کبھی،
تیرنے لگتے ہیں بے ہوشی کی آنکھوں میں کئی چہرے
جو دیکھے بھی نہ ہوں
کبھی دیکھے ہوں کسی نے تو سراغ اُن کا
کہاں سے پائے؟
کِس سے ایفا ہوئے اندوہ کے آداب کبھی
آرزوئیں کبھی پایاب تو سَریاب کبھی!)
یہ کوزوں کے لاشے، جو اِن کے لئے ہیں
کسی داستانِ فنا کے وغیرہ وغیرہ
ہماری اذاں ہیں، ہماری طلب کا نشاں ہیں
یہ اپنے سکوتِ اجل میں بھی یہ کہہ رہے ہیں:
"وہ آنکھیں ہمیں ہیں جو اندر کھُلی ہیں
تمہیں دیکھتی ہیں، ہر ایک درد کو بھانپتی ہیں
ہر اِک حُسن کے راز کو جانتی ہیں
کہ ہم ایک سنسان حجرے کی اُس رات کی آرزو ہیں
جہاں ایک چہرہ، درختوں کی شاخوں کے مانند
اِک اور چہرے پہ جھُک کر، ہر انسان کے سینے میں
اِک برگِ گُل رکھ گیا تھا
اُسی شب کا دزدیدہ بوسہ ہمیں ہیں!
Hassan Koozagar 3
حَسَن کوزہ گر- ٣ (ن م راشد)
جہاں زاد،
وہ حلب کی کارواں سرا کا حوض، رات وہ سکوت
جس میں ایک دوسرے سے ہم کنار تیرتے رہے
محیط جس طرح ہو دائرے کے گرد حلقہ زن
تمام رات تیرتے رہے تھے ہم
ہم ایک دوسرے کے جسم و جاں سے لگ کے
تیرتے رہے تھے ایک شاد کام خوف سے
کہ جیسے پانی آنسوؤں میں تیرتا رہے
ہم ایک دوسرے سے مطمئن زوالِ عمر کے خلاف
تیَرتے رہے
تو کہہ اٹھی؛ “حَسَن یہاں بھی کھینچ لائی
جاں کی تشنگی تجھے!“
(لو اپنی جاں کی تشنگی کو یاد کر رہا تھا مَیں
کہ میرا حلق آنسوؤں کی بے بہا سخاوتوں
سے شاد کام ہو گیا!)
مگر یہ وہم دل میں تَیرنے لگا کہ ہو نہ ہو
مرا بدن کہیں حلب کے حوض ہی میں رہ گیا
نہیں، مجھے دوئی کا واہمہ نہیں
کہ اب بھی ربطِ جسم و جاں کا اعتبار ہے مجھے
یہی وہ اعتبار تھا
کہ جس نے مجھ کو آپ میں سمو دیا
مَیں سب سے پہلے “آپ“ ہُوں
اگر ہمیں ہوں تُو ہو او مَیں ہوں پھر بھی مَیں
ہر ایک شے سے پہلے آپ ہوں!
اگر مَیں زندہ ہوں تو کیسے “آپ“ سے دغا کروں؟
کہ تیری جیسی عورتیں، جہاں زاد،
ایسی الجھنیں ہیں
جن کو آج تک کوئی نہیں “سلجھ“ سکا
جو مَیں کہوں کہ مَیں “سلجھ“ سکا تو سر بسر
فریب اپنے آپ سے!
کہ عورتوں کی وہ ساخت ہے وہ طنز اپنے آپ پر
جواب جس کا ہم نہیں
(لبیب کون ہے؟ تمام رات جس کا ذکر
تیرے لب پہ تھا
وہ کون تیرے گیسوؤں کو کھینچتا رہا
لبوں کو نوچتا رہا
جو مَیں کبھی نہ کر سکا
نہیں یہ سچ ہے میں ہوں یا لبیب ہو
رقیب ہو تو کس لیے تری خود آگہی کی بے ریا نشاطِ ناب کا
جو صدا نوا و یک نوا خرام ِ صبح کی طرح
لبیب ہر نوائے سازگار کی نفی سہی!)
مگر ہمارا رابطہ وصالِ آب و گِل نہیں، نہ تھا کبھی
وجودِ آدمی سے آب و گِل سدا بروں رہے
نہ ہر وصالِ آب و گِل سے کوئی جام یا سبو ہی نہ بن سکا
جو اِن کا ایک واہمہ ہی بن سکے تو بن سکے!
جہاں زاد،
ایک تو اور ایک وہ اور ایک مَیں
یہ تین زاویے کسی مثلثِ قدیم کے
ہمیشہ گھومتے رہے
کہ جیسے میرا چاک گھومتا رہا
مگر نہ اپنے آپ کا کوئی سراغ پا سکے
مثلثِ قدیم کو مَیں توڑ دوں، جو تو کہے، مگر نہیں
جو سحر مجھ پہ چاک کا وہی ہے اِس مثلثِ قدیم کا
نگاہیں میرے چاک کی جو مجھ کو دیکھتی ہیں
گھومتے ہوئے
سبو و جام پر ترا بدن، ترا ہی رنگ، تیری نازکی
برس پڑی
وہ کیمیا گری ترے جمال کی برس پڑی
مَیں سَیل ِ نُور ِ اندروں سے دھُل گیا!
مرے دروں کی خلق یوں گلی گلی نکل پڑی
کہ جیسے صبح کی اذاں سنائی دی!
تمام کوزے بنتے بنتے “تُو“ ہی بن کے رہ گئے
نشاط اِس وصالِ رہ گزر کی ناگہاں مجھے نگل گئی
یہی پیالہ و صراحی و سبو کا مرحلہ ہے وہ
کہ جب خمیر ِ آب و گِل سے وہ جدا ہوئے
تو اُن کو سمتِ راہِ نَو کی کامرانیاں ملیں
(مَیں ایک غریب کوزہ گر
یہ انتہائے معرفت
یہ ہر پیالہ و صراحی و سبو کی انتہائے معرفت
مجھے ہو اس کی کیا خبرِ؟)
جہاں زاد،
انتظار آج بھی مجھے ہی کیوں وہی مگر
جو نو برس کے دور ِ نا سزا میں تھا؟
اب انتظار آنسوؤں کے دجلہ کا
نہ گمرہی کی رات کا
(شبِ گُنہ کی لذّتوں کا اتنا ذکر کر چکا
وہ خود گناہ بن گئیں!)
حلب کی کارواں سرا کے حوض کا، نہ موت کا
نہ اپنی اس شکست خوردہ ذات کا
اِک انتظار ِ بے زماں کا تار ہے بندھا ہوا!
کبھی جو چند ثانیے زمانِ بے زماں میں آکے رک گئے
تو وقت کا یہ بار میرے سر سے بھی اُتر گیا
تمام رفتہ و گزشتہ صورتوں، تمام حادثوں
کے سست قافلے
مِرے دروں میں جاگ اُٹھے
مرے دروں میں اِک جہانِ بازیافتہ کی ریل پیل جاگ اُٹھی
بہشت جیسے جاگ آُٹھے خدا کے لا شعور میں!
مَیں جاگ اٹھا غنودگی کی ریت پر پڑا ہُوا
غنودگی کی ریت پر پڑے ہوئے وہ کوزے جو
مرے وجود سے بروں
تمام ریزہ ریزہ ہو کے رہ گئے تھے
میرے اپنے آپ سے فراق میں،
وہ پھر سے ایک کُل بنے (کسی نوائے ساز گار کی طرح)
وہ پھر سے ایک رقص ِ بے زماں بنے
وہ روئتِ ازل بنے!
جہاں زاد،
وہ حلب کی کارواں سرا کا حوض، رات وہ سکوت
جس میں ایک دوسرے سے ہم کنار تیرتے رہے
محیط جس طرح ہو دائرے کے گرد حلقہ زن
تمام رات تیرتے رہے تھے ہم
ہم ایک دوسرے کے جسم و جاں سے لگ کے
تیرتے رہے تھے ایک شاد کام خوف سے
کہ جیسے پانی آنسوؤں میں تیرتا رہے
ہم ایک دوسرے سے مطمئن زوالِ عمر کے خلاف
تیَرتے رہے
تو کہہ اٹھی؛ “حَسَن یہاں بھی کھینچ لائی
جاں کی تشنگی تجھے!“
(لو اپنی جاں کی تشنگی کو یاد کر رہا تھا مَیں
کہ میرا حلق آنسوؤں کی بے بہا سخاوتوں
سے شاد کام ہو گیا!)
مگر یہ وہم دل میں تَیرنے لگا کہ ہو نہ ہو
مرا بدن کہیں حلب کے حوض ہی میں رہ گیا
نہیں، مجھے دوئی کا واہمہ نہیں
کہ اب بھی ربطِ جسم و جاں کا اعتبار ہے مجھے
یہی وہ اعتبار تھا
کہ جس نے مجھ کو آپ میں سمو دیا
مَیں سب سے پہلے “آپ“ ہُوں
اگر ہمیں ہوں تُو ہو او مَیں ہوں پھر بھی مَیں
ہر ایک شے سے پہلے آپ ہوں!
اگر مَیں زندہ ہوں تو کیسے “آپ“ سے دغا کروں؟
کہ تیری جیسی عورتیں، جہاں زاد،
ایسی الجھنیں ہیں
جن کو آج تک کوئی نہیں “سلجھ“ سکا
جو مَیں کہوں کہ مَیں “سلجھ“ سکا تو سر بسر
فریب اپنے آپ سے!
کہ عورتوں کی وہ ساخت ہے وہ طنز اپنے آپ پر
جواب جس کا ہم نہیں
(لبیب کون ہے؟ تمام رات جس کا ذکر
تیرے لب پہ تھا
وہ کون تیرے گیسوؤں کو کھینچتا رہا
لبوں کو نوچتا رہا
جو مَیں کبھی نہ کر سکا
نہیں یہ سچ ہے میں ہوں یا لبیب ہو
رقیب ہو تو کس لیے تری خود آگہی کی بے ریا نشاطِ ناب کا
جو صدا نوا و یک نوا خرام ِ صبح کی طرح
لبیب ہر نوائے سازگار کی نفی سہی!)
مگر ہمارا رابطہ وصالِ آب و گِل نہیں، نہ تھا کبھی
وجودِ آدمی سے آب و گِل سدا بروں رہے
نہ ہر وصالِ آب و گِل سے کوئی جام یا سبو ہی نہ بن سکا
جو اِن کا ایک واہمہ ہی بن سکے تو بن سکے!
جہاں زاد،
ایک تو اور ایک وہ اور ایک مَیں
یہ تین زاویے کسی مثلثِ قدیم کے
ہمیشہ گھومتے رہے
کہ جیسے میرا چاک گھومتا رہا
مگر نہ اپنے آپ کا کوئی سراغ پا سکے
مثلثِ قدیم کو مَیں توڑ دوں، جو تو کہے، مگر نہیں
جو سحر مجھ پہ چاک کا وہی ہے اِس مثلثِ قدیم کا
نگاہیں میرے چاک کی جو مجھ کو دیکھتی ہیں
گھومتے ہوئے
سبو و جام پر ترا بدن، ترا ہی رنگ، تیری نازکی
برس پڑی
وہ کیمیا گری ترے جمال کی برس پڑی
مَیں سَیل ِ نُور ِ اندروں سے دھُل گیا!
مرے دروں کی خلق یوں گلی گلی نکل پڑی
کہ جیسے صبح کی اذاں سنائی دی!
تمام کوزے بنتے بنتے “تُو“ ہی بن کے رہ گئے
نشاط اِس وصالِ رہ گزر کی ناگہاں مجھے نگل گئی
یہی پیالہ و صراحی و سبو کا مرحلہ ہے وہ
کہ جب خمیر ِ آب و گِل سے وہ جدا ہوئے
تو اُن کو سمتِ راہِ نَو کی کامرانیاں ملیں
(مَیں ایک غریب کوزہ گر
یہ انتہائے معرفت
یہ ہر پیالہ و صراحی و سبو کی انتہائے معرفت
مجھے ہو اس کی کیا خبرِ؟)
جہاں زاد،
انتظار آج بھی مجھے ہی کیوں وہی مگر
جو نو برس کے دور ِ نا سزا میں تھا؟
اب انتظار آنسوؤں کے دجلہ کا
نہ گمرہی کی رات کا
(شبِ گُنہ کی لذّتوں کا اتنا ذکر کر چکا
وہ خود گناہ بن گئیں!)
حلب کی کارواں سرا کے حوض کا، نہ موت کا
نہ اپنی اس شکست خوردہ ذات کا
اِک انتظار ِ بے زماں کا تار ہے بندھا ہوا!
کبھی جو چند ثانیے زمانِ بے زماں میں آکے رک گئے
تو وقت کا یہ بار میرے سر سے بھی اُتر گیا
تمام رفتہ و گزشتہ صورتوں، تمام حادثوں
کے سست قافلے
مِرے دروں میں جاگ اُٹھے
مرے دروں میں اِک جہانِ بازیافتہ کی ریل پیل جاگ اُٹھی
بہشت جیسے جاگ آُٹھے خدا کے لا شعور میں!
مَیں جاگ اٹھا غنودگی کی ریت پر پڑا ہُوا
غنودگی کی ریت پر پڑے ہوئے وہ کوزے جو
مرے وجود سے بروں
تمام ریزہ ریزہ ہو کے رہ گئے تھے
میرے اپنے آپ سے فراق میں،
وہ پھر سے ایک کُل بنے (کسی نوائے ساز گار کی طرح)
وہ پھر سے ایک رقص ِ بے زماں بنے
وہ روئتِ ازل بنے!
Hassan Koozagar 2
حَسَن کوزہ گر- ٢ (ن م راشد)
اے جہاں زاد،
نشاط اس شبِ بے راہ روی کی
میں کہاں تک بھولوں؟
زور ِ مَے تھا، کہ مرے ہاتھ کی لرزش تھی
کہ اس رات کوئی جام گرا ٹوٹ گیا
تجھے حیرت نہ ہوئی!
کہ ترے گھر کے دریچوں کے کئ شیشوں پر
اس سے پہلے کی بھی درزیں تھیں بہت __
تجھے حیرت نہ ہوئی!
اے جہاں زاد،
میں کوزوں کی طرف، اپنے تغاروں کی طرف
اب جو بغداد سے لوٹا ہوں،
تو مَیں سوچتا ہوں _____
سوچتا ہوں: تو مرے سامنے آئینہ رہی
سر ِ بازار، دریچے میں، سر ِبستر ِ سنجاب کبھی
تو مرے سامنے آئینہ رہی،
جس میں کچھ بھی نظر آیا نہ مجھے
اپنی ہی صورت کے سوا
اپنی تنہائی ِ جانکاہ کی دہشت کے سوا!
لکھ رہا ہوں تجھے خط
اور وہ آئینہ مرے ہاتھ میں ہے
اِس میں کچھ بھی نظر آتا نہیں
اب ایک ہی صورت کے سوا!
لکھ رہا ہوں تجھے خط
اور مجھے لکھنا بھی کہاں آتا ہے؟
لوح آئینہ پہ اشکوں کی پھواروں ہی سے
خط کیوں نہ لکھوں؟
اے جہاں زاد،
نشاط اس شبِ بے راہ روی کی
مجھے پھر لائے گی؟
وقت کیا چیز ہے تو جانتی ہے؟
وقت اِک ایسا پتنگا ہے
جو دیواروں پہ آئینوں پہ،
پیمانوں پہ شیشوں پہ،
مرے جام و سبو، میرے تغاروں پہ
سدا رینگتا ہے
رینگتے وقت کے مانند کبھی
لوٹ آئے گا حَسَن کوزہ گر ِ سوختہ جاں بھی شاید!
اب جو لوٹا ہوں جہاں زاد،
تو میں سوچتا ہوں:
شاید اس جھونپڑے کی چھت پہ یہ مکڑی مری محرومی کی
جسے تنتی چلی جاتی ہے، وہ جالا تو نہیں ہوں مَیں بھی؟
یہ سیہ جھونپڑا مَیں جس میں پڑا سوچتا ہوں
میرے افلاس کے روندے ہوئے اجداد کی
بس ایک نشانی ہے یہی
ان کے فن، ان کی معیشت کی کہانی ہے یہی
مَیں جو لوٹا ہوں تو وہ سوختہ بخت
آکے مجھے دیکھتی ہے
دیر تک دیکھتی رہ جاتی ہے
میرے اس جھونپڑے میں کچھ بھی نہیں
کھیل اِک سادہ محبّت کا
شب و روز کے اِس بڑھتے ہوئے کھوکلے پن میں جو کبھی
کھیلتے ہیں
کبھی رو لیتے ہیں مل کر، کبھی گا لیتے ہیں،
اور مل کر کبھی ہنس لیتے ہیں
دل کے جینے کے بہانے کے سوا
حرف سرحد ہیں، جہاں زاد، معانی سرحد
عشق سرحد ہے، جوانی سرحد
اشک سرحد ہیں، تبسّم کی روانی سرحد
دل کے جینے کے بہانے کے سوا اور نہیں
(دردِ محرومی کی،
تنہائی کی سرحد بھی کہیں ہے کہ نہیں؟)
میرے اِس جھونپڑے میں کتنی ہی خوشبوئیں ہیں
جو مرے گرد سدا رینگتی ہیں
اسی اِک رات کی خوشبو کی طرح رینگتی ہیں
در و دیوار سے لپٹی ہوئی اِس گرد کی خوشبو بھی ہے
میرے افلاس کی، تنہائی کی،
یادوں، تمنّاؤں کی خوشبو ئیں بھی،
پھر بھی اِس جھونپڑے میں کچھ بھی نہیں ___
یہ مرا جھونپڑا تاریک ہے، گندہ ہے، پراگندہ ہے
ہاں، کبھی دور درختوں سے پرندوں کے صدا آتی ہے
کبھی انجیروں کے، زیتونوں کے باغوں کی مہک آتی ہے
تو مَیں جی اٹھتا ہوں
تو مَیں کہتا ہوں کہ لو آج نہا کر نکلا!
ورنہ اِس گھر میں کوئی سیج نہیں، عطر نہیں ہے،
کوئی پنکھا بھی نہیں،
تجھے جس عشق کی خو ہے
مجھے اس عشق کا یارا بھی نہیں!
تو ہنسے گی، اے جہاں زاد، عجب بات
کہ جذبات کا حاتم بھی مَیں
اور اشیا کا پرستار بھی مَیں
اور ثروت جو نہیں اس کا طلب گار بھی مَیں!
تو جو ہنستی رہی اس رات تذبذب پہ مرے
میری دو رنگی پہ پھر سے ہنس دے!
عشق سے کس نے مگر پایا ہے کچھ اپنے سوا؟
اے جہاں زاد،
ہے ہر عشق سوال ایسا کہ عاشق کے سوا
اس کا نہیں کوئی جواب
یہی کافی ہے کہ باطن کے صدا گونج اٹھے!
اے جہاں زاد
مرے گوشہء باطن کی صدا ہی تھی
مرے فن کی ٹھٹھرتی ہوئی صدیوں
کے کنارے گونجی
تیری آنکھوں کے سمندر کا کنارا ہی تھا
صدیوں کا کنارا نکلا
یہ سمندر جو مری ذات کا آئینہ ہے
یہ سمندر جو مرے کوزوں کے بگڑے ہوئے،
بنتے ہوئے سیماؤں کا آئینہ ہے
یہ سمندر جو ہر اِک فن کا
ہر اِک فن کے پرستار کا
آئینہ ہے
اے جہاں زاد،
نشاط اس شبِ بے راہ روی کی
میں کہاں تک بھولوں؟
زور ِ مَے تھا، کہ مرے ہاتھ کی لرزش تھی
کہ اس رات کوئی جام گرا ٹوٹ گیا
تجھے حیرت نہ ہوئی!
کہ ترے گھر کے دریچوں کے کئ شیشوں پر
اس سے پہلے کی بھی درزیں تھیں بہت __
تجھے حیرت نہ ہوئی!
اے جہاں زاد،
میں کوزوں کی طرف، اپنے تغاروں کی طرف
اب جو بغداد سے لوٹا ہوں،
تو مَیں سوچتا ہوں _____
سوچتا ہوں: تو مرے سامنے آئینہ رہی
سر ِ بازار، دریچے میں، سر ِبستر ِ سنجاب کبھی
تو مرے سامنے آئینہ رہی،
جس میں کچھ بھی نظر آیا نہ مجھے
اپنی ہی صورت کے سوا
اپنی تنہائی ِ جانکاہ کی دہشت کے سوا!
لکھ رہا ہوں تجھے خط
اور وہ آئینہ مرے ہاتھ میں ہے
اِس میں کچھ بھی نظر آتا نہیں
اب ایک ہی صورت کے سوا!
لکھ رہا ہوں تجھے خط
اور مجھے لکھنا بھی کہاں آتا ہے؟
لوح آئینہ پہ اشکوں کی پھواروں ہی سے
خط کیوں نہ لکھوں؟
اے جہاں زاد،
نشاط اس شبِ بے راہ روی کی
مجھے پھر لائے گی؟
وقت کیا چیز ہے تو جانتی ہے؟
وقت اِک ایسا پتنگا ہے
جو دیواروں پہ آئینوں پہ،
پیمانوں پہ شیشوں پہ،
مرے جام و سبو، میرے تغاروں پہ
سدا رینگتا ہے
رینگتے وقت کے مانند کبھی
لوٹ آئے گا حَسَن کوزہ گر ِ سوختہ جاں بھی شاید!
اب جو لوٹا ہوں جہاں زاد،
تو میں سوچتا ہوں:
شاید اس جھونپڑے کی چھت پہ یہ مکڑی مری محرومی کی
جسے تنتی چلی جاتی ہے، وہ جالا تو نہیں ہوں مَیں بھی؟
یہ سیہ جھونپڑا مَیں جس میں پڑا سوچتا ہوں
میرے افلاس کے روندے ہوئے اجداد کی
بس ایک نشانی ہے یہی
ان کے فن، ان کی معیشت کی کہانی ہے یہی
مَیں جو لوٹا ہوں تو وہ سوختہ بخت
آکے مجھے دیکھتی ہے
دیر تک دیکھتی رہ جاتی ہے
میرے اس جھونپڑے میں کچھ بھی نہیں
کھیل اِک سادہ محبّت کا
شب و روز کے اِس بڑھتے ہوئے کھوکلے پن میں جو کبھی
کھیلتے ہیں
کبھی رو لیتے ہیں مل کر، کبھی گا لیتے ہیں،
اور مل کر کبھی ہنس لیتے ہیں
دل کے جینے کے بہانے کے سوا
حرف سرحد ہیں، جہاں زاد، معانی سرحد
عشق سرحد ہے، جوانی سرحد
اشک سرحد ہیں، تبسّم کی روانی سرحد
دل کے جینے کے بہانے کے سوا اور نہیں
(دردِ محرومی کی،
تنہائی کی سرحد بھی کہیں ہے کہ نہیں؟)
میرے اِس جھونپڑے میں کتنی ہی خوشبوئیں ہیں
جو مرے گرد سدا رینگتی ہیں
اسی اِک رات کی خوشبو کی طرح رینگتی ہیں
در و دیوار سے لپٹی ہوئی اِس گرد کی خوشبو بھی ہے
میرے افلاس کی، تنہائی کی،
یادوں، تمنّاؤں کی خوشبو ئیں بھی،
پھر بھی اِس جھونپڑے میں کچھ بھی نہیں ___
یہ مرا جھونپڑا تاریک ہے، گندہ ہے، پراگندہ ہے
ہاں، کبھی دور درختوں سے پرندوں کے صدا آتی ہے
کبھی انجیروں کے، زیتونوں کے باغوں کی مہک آتی ہے
تو مَیں جی اٹھتا ہوں
تو مَیں کہتا ہوں کہ لو آج نہا کر نکلا!
ورنہ اِس گھر میں کوئی سیج نہیں، عطر نہیں ہے،
کوئی پنکھا بھی نہیں،
تجھے جس عشق کی خو ہے
مجھے اس عشق کا یارا بھی نہیں!
تو ہنسے گی، اے جہاں زاد، عجب بات
کہ جذبات کا حاتم بھی مَیں
اور اشیا کا پرستار بھی مَیں
اور ثروت جو نہیں اس کا طلب گار بھی مَیں!
تو جو ہنستی رہی اس رات تذبذب پہ مرے
میری دو رنگی پہ پھر سے ہنس دے!
عشق سے کس نے مگر پایا ہے کچھ اپنے سوا؟
اے جہاں زاد،
ہے ہر عشق سوال ایسا کہ عاشق کے سوا
اس کا نہیں کوئی جواب
یہی کافی ہے کہ باطن کے صدا گونج اٹھے!
اے جہاں زاد
مرے گوشہء باطن کی صدا ہی تھی
مرے فن کی ٹھٹھرتی ہوئی صدیوں
کے کنارے گونجی
تیری آنکھوں کے سمندر کا کنارا ہی تھا
صدیوں کا کنارا نکلا
یہ سمندر جو مری ذات کا آئینہ ہے
یہ سمندر جو مرے کوزوں کے بگڑے ہوئے،
بنتے ہوئے سیماؤں کا آئینہ ہے
یہ سمندر جو ہر اِک فن کا
ہر اِک فن کے پرستار کا
آئینہ ہے
Hassan Koozagar 1
حسن کوزہ گر -١ (ن م راشد)
جہاں زاد، نیچے گلی میں ترے در کے آگے
یہ میں سوختہ سر حسن کوزہ گر ھوں!
تجھے صبح بازار میں بوڑھے عطّار یوسف
کی دکّان پر میں نے دیکھا
تو تیری نگاھوں میں وہ تابناکی
تھی میں جس کی حسرت میں نو سال دیوانہ پھرتا رہا ھوں
جہاں زاد، نو سال دیوانہ پھرتا رھا ھوں!
یہ وہ دور تھا جس میں میں نے
کبھی اپنے رنجور کوزوں کی جانب
پلٹ کر نہ دیکھا
وہ کوزے مرے دست چابک کے پتلے
گل و رنگ و روغن کی مخلوق بے جاں
وہ سر گوشیوں میں یہ کہتے
"حسن کوزہ گر اب کہاں ھے
وہ ہم سے خود اپنے عمل سے
خداوند بن کر خداؤں کے مانند ھے روئے گرداں!"
جہاں زاد نو سال کا دور یوں مجھ پہ گزرا
کہ جیسے کسی شہر مدفون پر وقت گزرے
تغاروں میں مٹی
کبھی جس کی خوشبو سے وارفتہ ھوتا تھا میں
سنگ بستہ پڑی تھی
صراحی و مینا و جام و سبو اور فانوس و گلداں
مری ہیچ مایہ معیشت کے، اظہار فن کے سہارے
شکستہ پڑے تھے
میں خود، میں حسن کوزہ گر پا بہ گل خاک بر سر برھنہ
سر چاک ژولیدہ مو، سر بزانو
کسی غمزدہ دیوتا کی طرح واہمہ کے
گل و لا سے خوابوں کے سیّال کوزے بناتا رہا تھا
جہاں زاد، نو سال پہلے
تو ناداں تھی لیکن تجھے یہ خبر تھی
کہ میں نے، حسن کوزہ گر نے
تری قاف کی سی افق تاب آنکھوں
میں دیکھی ھے وہ تابناکی
کہ جس سے مرے جسم و جاں، ابرو مہتاب کا
رھگزر بن گئے تھے
جہاں زاد بغداد کی خواب گوں رات
وہ رود دجلہ کا ساحل
وہ کشتی وہ ملّاح کی بند آنکھیں
کسی خستہ جاں رنج بر کوزہ گر کے لیے
ایک ہی رات وہ کہربا تھی
کہ جس سے ابھی تک ھے پیوست اسکا وجود
اس کی جاں اس کا پیکر
مگر ایک ہی رات کا ذوق دریا کی وہ لہر نکلا
حسن کوزہ گر جس میں ڈوبا تو ابھرا نہیں ھے!
جہاں زاد اس دور میں روز، ہر روز
وہ سوختہ بخت آکر
مجھے دیکھتی چاک پر پا بہ گل سر بزانو
تو شانوں سے مجھ کو ہلاتی
جہاں زاد، نیچے گلی میں ترے در کے آگے
یہ میں سوختہ سر حسن کوزہ گر ھوں!
تجھے صبح بازار میں بوڑھے عطّار یوسف
کی دکّان پر میں نے دیکھا
تو تیری نگاھوں میں وہ تابناکی
تھی میں جس کی حسرت میں نو سال دیوانہ پھرتا رہا ھوں
جہاں زاد، نو سال دیوانہ پھرتا رھا ھوں!
یہ وہ دور تھا جس میں میں نے
کبھی اپنے رنجور کوزوں کی جانب
پلٹ کر نہ دیکھا
وہ کوزے مرے دست چابک کے پتلے
گل و رنگ و روغن کی مخلوق بے جاں
وہ سر گوشیوں میں یہ کہتے
"حسن کوزہ گر اب کہاں ھے
وہ ہم سے خود اپنے عمل سے
خداوند بن کر خداؤں کے مانند ھے روئے گرداں!"
جہاں زاد نو سال کا دور یوں مجھ پہ گزرا
کہ جیسے کسی شہر مدفون پر وقت گزرے
تغاروں میں مٹی
کبھی جس کی خوشبو سے وارفتہ ھوتا تھا میں
سنگ بستہ پڑی تھی
صراحی و مینا و جام و سبو اور فانوس و گلداں
مری ہیچ مایہ معیشت کے، اظہار فن کے سہارے
شکستہ پڑے تھے
میں خود، میں حسن کوزہ گر پا بہ گل خاک بر سر برھنہ
سر چاک ژولیدہ مو، سر بزانو
کسی غمزدہ دیوتا کی طرح واہمہ کے
گل و لا سے خوابوں کے سیّال کوزے بناتا رہا تھا
جہاں زاد، نو سال پہلے
تو ناداں تھی لیکن تجھے یہ خبر تھی
کہ میں نے، حسن کوزہ گر نے
تری قاف کی سی افق تاب آنکھوں
میں دیکھی ھے وہ تابناکی
کہ جس سے مرے جسم و جاں، ابرو مہتاب کا
رھگزر بن گئے تھے
جہاں زاد بغداد کی خواب گوں رات
وہ رود دجلہ کا ساحل
وہ کشتی وہ ملّاح کی بند آنکھیں
کسی خستہ جاں رنج بر کوزہ گر کے لیے
ایک ہی رات وہ کہربا تھی
کہ جس سے ابھی تک ھے پیوست اسکا وجود
اس کی جاں اس کا پیکر
مگر ایک ہی رات کا ذوق دریا کی وہ لہر نکلا
حسن کوزہ گر جس میں ڈوبا تو ابھرا نہیں ھے!
جہاں زاد اس دور میں روز، ہر روز
وہ سوختہ بخت آکر
مجھے دیکھتی چاک پر پا بہ گل سر بزانو
تو شانوں سے مجھ کو ہلاتی
(وہی چاک جو سالہا سال جینے کا تنہا سہارا رہا تھا!)
وہ شانوں سے مجھ کو ہلاتی
"حسن کوزہ گر ھوش میں آ
حسن اپنے ویران گھر پر نظر کر
یہ بچّوں کے تنّور کیونکر بھریں گے
حسن 'اے محبّت کے مارے
محبّت امیروں کی بازی'
حسن، اپنے دیوار و در پر نظر کر"
مرے کان میں یہ نوائے حزیں یوں تھی جیسے
کسی ڈوبتے شخص کو زیرگرداب کوئی پکارے!
وہ اشکوں کے انبار پھولوں کے انبار تھے ہاں
مگر میں حسن کوزہ گر شہر اوہام کے ان
خرابوں کا مجذوب تھا جن
میں کوئی صدا کوئی جنبش
کسی مرغ پرّاں کا سایہ
کسی زندگی کا نشاں تک نہیں تھا!
جہاں زاد، میں آج تیری گلی میں
یہاں رات کی سرد گوں تیرگی میں
ترے در کے آگے کھڑا ھوں
سرو مو پریشاں
دریچے سے وہ قاف کی سی طلسمی نگاھیں
مجھے آج پھر جھانکتی ھیں
زمانہ، جہاں زاد وہ چاک ھے جس پہ مینا و جام و سبو
اور فانوس و گلداں
کے مانند بنتے بگڑتے ہیں انساں
میں انساں ھوں لیکن
یہ نو سال جو غم کے قالب میں گزرے!
حسن کوزہ گر آج اک تودہ خاک ھے جس
میں نم کا اثر تک نہیں ھے
جہاں زاد بازار میں صبح عطّار یوسف
کی دکّان پر تیری آنکھیں
پھر اک بار کچھ کہہ گئی ہیں
ان آنکھوں کی تابندہ شوخی
سے اٹھی ھے پھر تودہ خاک میں نم کی ہلکی سی لرزش
یہی شاید اس خاک کو گل بنا دے!
تمنّا کی وسعت کی کس کو خبر ھے جہاں زاد لیکن
تو چاھے تو بن جاؤں میں پھر
وہی کوزہ گر جس کے کوزے
تھے ھر کاخ و کو اور ھر شہر و قریہ کی نازش
تھے جن سے امیر و گدا کے مساکن درخشاں
تمنّا کی وسعت کی کس کو خبر ھے جہاں زاد لیکن
تو چاھے تو میں پھر پلٹ جاؤں ان اپنے مہجور کوزوں کی جانب
گل و لا کے سوکھے تغاروں کی جانب
معیشت کے اظہار فن کے سہاروں کی جانب
کہ میں اس گل و لا سے ، اس رنگ و روغن
سے پھر وہ شرارے نکالوں کہ جن سے
دلوں کے خرابے ھوں روشن!
وہ شانوں سے مجھ کو ہلاتی
"حسن کوزہ گر ھوش میں آ
حسن اپنے ویران گھر پر نظر کر
یہ بچّوں کے تنّور کیونکر بھریں گے
حسن 'اے محبّت کے مارے
محبّت امیروں کی بازی'
حسن، اپنے دیوار و در پر نظر کر"
مرے کان میں یہ نوائے حزیں یوں تھی جیسے
کسی ڈوبتے شخص کو زیرگرداب کوئی پکارے!
وہ اشکوں کے انبار پھولوں کے انبار تھے ہاں
مگر میں حسن کوزہ گر شہر اوہام کے ان
خرابوں کا مجذوب تھا جن
میں کوئی صدا کوئی جنبش
کسی مرغ پرّاں کا سایہ
کسی زندگی کا نشاں تک نہیں تھا!
جہاں زاد، میں آج تیری گلی میں
یہاں رات کی سرد گوں تیرگی میں
ترے در کے آگے کھڑا ھوں
سرو مو پریشاں
دریچے سے وہ قاف کی سی طلسمی نگاھیں
مجھے آج پھر جھانکتی ھیں
زمانہ، جہاں زاد وہ چاک ھے جس پہ مینا و جام و سبو
اور فانوس و گلداں
کے مانند بنتے بگڑتے ہیں انساں
میں انساں ھوں لیکن
یہ نو سال جو غم کے قالب میں گزرے!
حسن کوزہ گر آج اک تودہ خاک ھے جس
میں نم کا اثر تک نہیں ھے
جہاں زاد بازار میں صبح عطّار یوسف
کی دکّان پر تیری آنکھیں
پھر اک بار کچھ کہہ گئی ہیں
ان آنکھوں کی تابندہ شوخی
سے اٹھی ھے پھر تودہ خاک میں نم کی ہلکی سی لرزش
یہی شاید اس خاک کو گل بنا دے!
تمنّا کی وسعت کی کس کو خبر ھے جہاں زاد لیکن
تو چاھے تو بن جاؤں میں پھر
وہی کوزہ گر جس کے کوزے
تھے ھر کاخ و کو اور ھر شہر و قریہ کی نازش
تھے جن سے امیر و گدا کے مساکن درخشاں
تمنّا کی وسعت کی کس کو خبر ھے جہاں زاد لیکن
تو چاھے تو میں پھر پلٹ جاؤں ان اپنے مہجور کوزوں کی جانب
گل و لا کے سوکھے تغاروں کی جانب
معیشت کے اظہار فن کے سہاروں کی جانب
کہ میں اس گل و لا سے ، اس رنگ و روغن
سے پھر وہ شرارے نکالوں کہ جن سے
دلوں کے خرابے ھوں روشن!
Wednesday, 9 October 2013
کبھی تو آسماں سے چاند اترے جام ہو جاۓ
تمہارے نام کی ایک خوب صورت شام ہو جاۓ
میں خود بھی احتیاطً اس گلی سے کم گزرتا ہوں
کویٔ معصوم کیوں میرے لیۓ بدنام ہو جاۓ
ہمیں معلوم ھے اس کا ٹھکانہ پھر کہاں ہوگا
پرندہ آسماں چھونے میں جب ناکام ہو جاۓ
اجالے اپنی ےیادوں کے ہمارے ساتھ رہنے دو
نہ جانے کس گلی میں زندگی کی شام ہو جاۓ
تمہارے نام کی ایک خوب صورت شام ہو جاۓ
میں خود بھی احتیاطً اس گلی سے کم گزرتا ہوں
کویٔ معصوم کیوں میرے لیۓ بدنام ہو جاۓ
ہمیں معلوم ھے اس کا ٹھکانہ پھر کہاں ہوگا
پرندہ آسماں چھونے میں جب ناکام ہو جاۓ
اجالے اپنی ےیادوں کے ہمارے ساتھ رہنے دو
نہ جانے کس گلی میں زندگی کی شام ہو جاۓ
(بشیر بدر)
Tuesday, 8 October 2013
یہ تیرا جمالِ کامل یہ شباب کا زمانہ
دلِ دُشمناں سلامت دلِ دوستاں نشانہ
میں ہوں اُس مقام پر اب کہ فراق و وصال کیسے
میرا عشق بھی کہانی تیرا حُسن بھی فسانہ
میری زندگی تو گزری تیرے ہجر کے سہارے
میری موت کو بھی پیارے کویٔ چاھیۓ بہانہ
تیرے عشق کی کرامت یہ اگر نہیں تو کیا ھے؟
کبھی بے ادب نہ گزرا میرے پاس سے زمانہ
میں وہ صاف ہی نا کہ دوں جو ھے فرق مجھ میں تجھ میں
میرا درد، دردِ تنہا تیرا غم، غمِ زمانہ
دلِ دُشمناں سلامت دلِ دوستاں نشانہ
میں ہوں اُس مقام پر اب کہ فراق و وصال کیسے
میرا عشق بھی کہانی تیرا حُسن بھی فسانہ
میری زندگی تو گزری تیرے ہجر کے سہارے
میری موت کو بھی پیارے کویٔ چاھیۓ بہانہ
تیرے عشق کی کرامت یہ اگر نہیں تو کیا ھے؟
کبھی بے ادب نہ گزرا میرے پاس سے زمانہ
میں وہ صاف ہی نا کہ دوں جو ھے فرق مجھ میں تجھ میں
میرا درد، دردِ تنہا تیرا غم، غمِ زمانہ
تیرے دل کے ٹوٹنے پر ھے کسی کو ناز کیا کیا
تجھے اے جگرؔ مبارک یہ شکستِ فاتحانہ
تجھے اے جگرؔ مبارک یہ شکستِ فاتحانہ
وہ اداۓ دلبری ہو کہ نواۓ عاشقانہ
جو دلوں کو فتح کر لے وہی فاتحِ زمانہ
کبھی حُسن کی طبیعت نا بدل سکا زمانہ
وہی نازِبےنیازی، وہی شانِ خسرووانہ
تیری دوری وحضوری سے ہے کچھ عجیب عالَم
ابھی زندگی حقیقت ابھی زندگی فسانہ
میرے ہم سفیر بلبل، میرا تیرا ساتھ ھی کیا
میں ضمیر دشت و دریا، تو اسیرِآشیانہ
جو دلوں کو فتح کر لے وہی فاتحِ زمانہ
کبھی حُسن کی طبیعت نا بدل سکا زمانہ
وہی نازِبےنیازی، وہی شانِ خسرووانہ
تیری دوری وحضوری سے ہے کچھ عجیب عالَم
ابھی زندگی حقیقت ابھی زندگی فسانہ
میرے ہم سفیر بلبل، میرا تیرا ساتھ ھی کیا
میں ضمیر دشت و دریا، تو اسیرِآشیانہ
گزرتے لمحوں!
مجھے بتاؤ زندگی کا اصول کیا ہے
تمام ہاتھوں میں آئینے ہیں
کون کس سے چھپتا ہے
اگر صدا کا وجود کانوں سے منسلک ہے
تو کون خوشبو بن کر بولتا ہے
اگر سمندر کی حد ساحل ہے
تو کون آنکھوں میں پھیلتا ہے
تمام چیزیں اگر ملتی ہیں
تو کون چیزوں سے ماورا ہے
کِسے خبر ۔۔۔ بدلتی رُت نے پرانے پتوں سے کیا کہا
یہ کون بادل سے پوچھے کہ اتنے سال کہاں رہا
یہ جو آج دیکھا ہے وہ کل نہ ہوگا
کوئی لمحہ اٹل نہ ہوگا
گزرتے ہوئے لمحو!
مجھے بتاؤ زندگی کا اصول کیا ہے
(امجد اسلام امجدؔ)
میرے چارہ گر
یہ جو زخم ، زخم سے خواب ہیں، یہ جو رات ہے میرے چار سو
مرے بےخبر ، مرے بےنشاں ، میں تھا کس نگر ، تو رھا کہاں
کہ زماں ، مکاں کی یہ وسعتیں ، تجھے دیکھنے کو ترس گئیں
وہ مرے نصیب کی بارشیں ، کسی اور چھت پر برس گئیں
تو میرے سفر کا شریک ہے ، نہیں ھمسفر ، نہیں ھمسفر !
میرے چارہ گر ، میرے چارہ گر ، میرے درد کی تجھے کیا خبر
وہ جو ھاتھ بھر کا تھا فاصلہ ، کئی موسموں میں بدل گیا
اسے ناپتے ، اسے کاٹتے ، میرا سارا وقت نکل گیا
نہیں جس پہ نشان پا ، میرے سامنے ہے وہ راہگزر
میرے چارہ گر ، میرے چارہ گر ، میرے درد کی تجھے کیا خبر
یہ جو زخم ، زخم سے خواب ہیں، یہ جو رات ہے میرے چارسو
یہ جو بےبسی کا ہے قافلہ ، سبھی راستوں میں رکا ہوا
نہیں کچھ بھی تجھ سے چھپا ہوا ،اسے حکم دے ، یہ کرے سفر
میرے چارہ گر ، میرے چارہ گر ، میرے درد کی تجھے کیا خبر
انتہا ھے خدا شناسی کی
بے نیازِ خدا رھا ہوں میں
رہنما کچھ پتا تو چلنے دے
آ رہا ہوں کہ جا رہا ہوں میں
کتنی پختہ ھے میری نادانی
تجھ کو تجھ سے چھپا رہا ہوں میں
علم خود تھک چکا مگر اب تک
پڑھ رہا ہوں پڑھا رہا ہوں میں
تجھ کو کیا علم کتنی مدت سے
تیرے لہجے چرا رہا ہوں میں
اُن کو ملنے کی آرزو میں عدمؔ
اپنے نزدیک آ رہا ہوں میں
بے نیازِ خدا رھا ہوں میں
رہنما کچھ پتا تو چلنے دے
آ رہا ہوں کہ جا رہا ہوں میں
کتنی پختہ ھے میری نادانی
تجھ کو تجھ سے چھپا رہا ہوں میں
علم خود تھک چکا مگر اب تک
پڑھ رہا ہوں پڑھا رہا ہوں میں
تجھ کو کیا علم کتنی مدت سے
تیرے لہجے چرا رہا ہوں میں
اُن کو ملنے کی آرزو میں عدمؔ
اپنے نزدیک آ رہا ہوں میں
(عبدالحمیدعدمؔ)
Sunday, 29 September 2013
Mumkin hai (Numm)
Mumkin hai chashm e numm teri tera ghuroor ho
Mumkin hai ke ye aag bhi paani se dour ho
Mumkin hai saraiyyat karay zeher ragon mein
Mumkin hai is zeher ka asar dour, dour ho
Mumkin hai ke mumkin na ho youn mera palatna
Mumkin hai izteraab mein bhi kuch suroor ho
Mumkin hai aa bhi jao tum mere khayal mein
Mumkin hai dour dour raho, dour dour ho,
Mumkin hai nazar bhar ke tumhain daikh lain,
Mumkin hai aik nazar mein kabhi ishq dour ho
Mumkin hai mera wehem ho mera khayal ho
Mumkin hai mere haal mein bhi tera qasoor ho
Mumkin hai tujhe chaah ke bhi chaah na sakoon,
Mumkin hai tere paas bhi aa na sakoon
Mumkin hai ye faraib ho teri adaawat
Mumkin hai tujhe keh ke bhi milay na sakoon
Mumkin hai mujh pe rehem ho ya mujh se sawal ho
Mumkin hai mere sawal pe wo laajawab ho
Mumkin hai chashm e numm ko sitara na kar sako
Mumkin hai tum bhi koi ishara na kar sako
Mumkin hai zeher de kar ataa kar do zindagi
Mumkin hai ye karam bhi dobara na kar sako
Mumkin hai mera hukm bhi tum ko qabool ho
Mumkim hai ilteja bhi gawara na kar sako
Mumkin hai do qadam par badal jao raasta
Mumkin hai umr bhar bhi kinara na kar sako
Mumkin hai mere baghair bhi zindagi
Mumkin hai apne saath bhi guzara na kar sako
Sunday, 22 September 2013
رنجش ہی سہی
رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لئے آ
آ پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے لئے آ
پہلے سے مراسم نہ سہی پھر بھی کبھی تو
رسم و راہ دنیا ہی نبھانے کے لئے آ
کس کس کو بتایئں گے جدائی کا سبب ہم
تُو مجھ سے خفا ھے تو زمانے کے لۓ آ
کچھ تو میری پندارِمحبت کا بھرم رکھ
تُو بھی تو کبھی مجھ کو منانے کے لۓ آ
کچھ تو میری پندارِمحبت کا بھرم رکھ
تُو بھی تو کبھی مجھ کو منانے کے لۓ آ
ایک عمر سے ہم لذت گریا سے بھی محروم
اے راحت جاں مجھ کو رلانے کے لئے آ
اب تک دل خوش فہم کو ہیں تجھ سے امیدیں
یہ آخری شمعیں بھی بجھانے کے لئے آ
Friday, 20 September 2013
Friday, 13 September 2013
Dil Hi Tu Hai Na Sang o Khisht (Ghalib)
دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت، درد سے بھر نہ آۓ کیوں؟
رویئں گے ہم ہزار بار کویٔ ہمیں ستاۓ کیوں ؟
دَیر نہیں حَرم نہیں در نہیں آستاں نہیں
بیٹھے ہیں راہ گُزر پہ ہم غیر ہمیں اُٹھا کیوں؟
جب وہ جمالِ دل فروز صورتِ مہرِنیم روز
ٓآپ ہی ہو نظارۂ سوز پردے میں منہ چھپاۓ کیوں؟
دشنۂ غمزہ جاں ستاں ناوکِ ناز بے پناہ
تیرا ہی عکسِ رُخ سہی سامنے تیرے آۓ کیوں؟
قیدِ حیات و بندِ غم اصل میں دونوں ایک ہیں
موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پاۓ کیوں؟
بیٹھے ہیں راہ گُزر پہ ہم غیر ہمیں اُٹھا کیوں؟
جب وہ جمالِ دل فروز صورتِ مہرِنیم روز
ٓآپ ہی ہو نظارۂ سوز پردے میں منہ چھپاۓ کیوں؟
دشنۂ غمزہ جاں ستاں ناوکِ ناز بے پناہ
تیرا ہی عکسِ رُخ سہی سامنے تیرے آۓ کیوں؟
قیدِ حیات و بندِ غم اصل میں دونوں ایک ہیں
موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پاۓ کیوں؟
حُسن اور اُس پہ حُسنِ ظن رہ گیٔ بوالہوس کی شرم
اپنے پہ اعتماد ہے غیر کو آزماۓ کیوں؟
واں وہ غرورِ عزوناز یاں یہ حجابِ پاسِ وضع
راہ میں ھم مِلیں کہاں؟ بزم میں وہ بلاۓ کیوں؟
ہاں وہ نہیں خدا پرست جاؤ وہ بے وفا سہی
جس کو ہو دِین و دل عزیز اس گلی میں جاۓ کیوں؟
غالبؔ خستہ کے بغیر کون سے کام بند ہیں؟
رویٔے زار زار کیا کیجیے ہاۓ ہاۓ کیوں ؟
اپنے پہ اعتماد ہے غیر کو آزماۓ کیوں؟
واں وہ غرورِ عزوناز یاں یہ حجابِ پاسِ وضع
راہ میں ھم مِلیں کہاں؟ بزم میں وہ بلاۓ کیوں؟
ہاں وہ نہیں خدا پرست جاؤ وہ بے وفا سہی
جس کو ہو دِین و دل عزیز اس گلی میں جاۓ کیوں؟
غالبؔ خستہ کے بغیر کون سے کام بند ہیں؟
رویٔے زار زار کیا کیجیے ہاۓ ہاۓ کیوں ؟
Wednesday, 11 September 2013
Har Taraf Har Jagah Beshumar Aadmi
Har taraf har jagah beshumar aadmi
Phir bhi tanhaiyon ka shikaar aadmi
Subah se shaam tak bojh dhota hua
Apni hi laash ka khud mazaar aadmi
Har taraf bhaagtay dourrtay raastay
Har taraf aadmi ka shikaar aadmi
Roz jeeta hua roz marta hua
Har naye din naya intezaar aadmi
Zindagi ka muqaddar safar dar safar
Aakhri saans tak bekaraar aadmi
ہر طرف ہر جگہ بے شمار آدمی
پھر بھی تنھایئوں کا شکار آدمی
صبح سے شام تک بوجھ ڈھوتا ہوا
اپنی ہی لاش کا خود مزار آدمی
ہر طرف بھاگتے دوڑتے راستے
ہر طرف آدمی کا شکار آدمی
روز جیتا ہوا روز مرتا ہوا
ہر نۓ دن نیا انتظار آدمی
زندگی کا مقدر سفر در سفر
آخری سانس تک بے قرار آدمی
Charkha
سُن چرکھے دی مٹھی مٹھی کُوک
ماہیا مینوں یاد آؤندا
میرے دل وچوں اُٹھدی اے ہُوک
ماہیا مینوں یاد آؤندا
میری عید والا چَن کدوں چڑھیگا۔۔۔۔؟
اللہ جانے ماہی کدوں ویہڑے وڑیگا۔۔۔۔؟
دُکھ ڈاھڈے نیں تے جندڑی ملوک
ماہیا مینوں یاد آؤندا۔۔۔۔ سُن چرکھے دی مٹھی مٹھی کوک۔۔۔۔
ماہی آوے گا تے خوشیاں مناواں گی
اوہدے راہاں وچ اکھیاں بچھاواں گی
جان چھڈی اے وچھوڑیاں نے پُھوک
ماہیا مینوں یاد آوندا۔۔۔۔ سُن چرکھے دی مٹھی مٹھی کوک۔۔۔۔
تانے مار دے نیں اپنے شریک وے
لکھیں چٹھی وچ آؤن دی تاریخ وے
کالی رات والی ڈنگے مینوں شوک
ماہیا مینوں یاد آؤندا۔۔۔۔۔سُن چرکھے دی مٹھی مٹھی کوک
کٹاں پونیاں تے ہنجو میرے وَگدے
ہُن ہاسے پی نئیں مینوں چنگے لگدے
کیویں بُھل جاواں اوہدے میں سُلوک
ماہیا مینوں یاد آؤندا سُن چرکھے دی مٹھی مٹھی کوک
ماہیا مینوں یاد آؤندا۔۔۔۔۔
میرے دل وچوں اُٹھدی اے ہُوک ماہیا مینوں یاد آؤندا
سُن چرکھے دی مٹھی مٹھی کُوک
ماہیا مینوں یاد آؤندا
میرے دل وچوں اُٹھدی اے ہُوک
ماہیا مینوں یاد آؤندا
میری عید والا چَن کدوں چڑھیگا۔۔۔۔؟
اللہ جانے ماہی کدوں ویہڑے وڑیگا۔۔۔۔؟
دُکھ ڈاھڈے نیں تے جندڑی ملوک
ماہیا مینوں یاد آؤندا۔۔۔۔ سُن چرکھے دی مٹھی مٹھی کوک۔۔۔۔
ماہی آوے گا تے خوشیاں مناواں گی
اوہدے راہاں وچ اکھیاں بچھاواں گی
جان چھڈی اے وچھوڑیاں نے پُھوک
ماہیا مینوں یاد آوندا۔۔۔۔ سُن چرکھے دی مٹھی مٹھی کوک۔۔۔۔
تانے مار دے نیں اپنے شریک وے
لکھیں چٹھی وچ آؤن دی تاریخ وے
کالی رات والی ڈنگے مینوں شوک
ماہیا مینوں یاد آؤندا۔۔۔۔۔سُن چرکھے دی مٹھی مٹھی کوک
کٹاں پونیاں تے ہنجو میرے وَگدے
ہُن ہاسے پی نئیں مینوں چنگے لگدے
کیویں بُھل جاواں اوہدے میں سُلوک
ماہیا مینوں یاد آؤندا سُن چرکھے دی مٹھی مٹھی کوک
ماہیا مینوں یاد آؤندا۔۔۔۔۔
میرے دل وچوں اُٹھدی اے ہُوک ماہیا مینوں یاد آؤندا
ماہیا مینوں یاد آؤندا
میرے دل وچوں اُٹھدی اے ہُوک
ماہیا مینوں یاد آؤندا
میری عید والا چَن کدوں چڑھیگا۔۔۔۔؟
اللہ جانے ماہی کدوں ویہڑے وڑیگا۔۔۔۔؟
دُکھ ڈاھڈے نیں تے جندڑی ملوک
ماہیا مینوں یاد آؤندا۔۔۔۔ سُن چرکھے دی مٹھی مٹھی کوک۔۔۔۔
ماہی آوے گا تے خوشیاں مناواں گی
اوہدے راہاں وچ اکھیاں بچھاواں گی
جان چھڈی اے وچھوڑیاں نے پُھوک
ماہیا مینوں یاد آوندا۔۔۔۔ سُن چرکھے دی مٹھی مٹھی کوک۔۔۔۔
تانے مار دے نیں اپنے شریک وے
لکھیں چٹھی وچ آؤن دی تاریخ وے
کالی رات والی ڈنگے مینوں شوک
ماہیا مینوں یاد آؤندا۔۔۔۔۔سُن چرکھے دی مٹھی مٹھی کوک
کٹاں پونیاں تے ہنجو میرے وَگدے
ہُن ہاسے پی نئیں مینوں چنگے لگدے
کیویں بُھل جاواں اوہدے میں سُلوک
ماہیا مینوں یاد آؤندا سُن چرکھے دی مٹھی مٹھی کوک
ماہیا مینوں یاد آؤندا۔۔۔۔۔
میرے دل وچوں اُٹھدی اے ہُوک ماہیا مینوں یاد آؤندا
Paanchwan Mausam
"پانچواں موسم"
بہت مصروف رہتا ھے
نئی دنیا بسانے میں
ںئے موسم ںئے رستے ۔۔
سجانے میں_______
نئے ساتھی بنانے میں
ابھی فرصت کہاں اسکو؟
پلٹ کر آئینہ دیکھے۔۔۔۔
ابھی تو بے پناۃ چہرے
ھزاروں خوش گماں آنکھیں
اسے اپنا بناتی ہیں۔۔۔۔
اسے دل میں سجاتی ہیں
اسے میں یاد کیوں آئوں۔۔۔۔۔؟
ابھی تو میں_____
سفر کی گرد میں گم ھوں
گلابی موسموں کی دسترس سے
دور ھوں کب سے
عجب سے درد میں گم ھوں
میں _____رسم زرد میں گم ھوں۔
میں اسکے بند کمرے__میں
سجا اک آئینہ ہی ھوں
اسے فرصت کہاں اتنی۔۔۔۔
مجھے وہ اک نظر دیکھے
میں اسکا پانچواں موسم
اسے تب یاد آئوں گی
کہ جب کچھ بھی نہیں ھوگا
نہ کوئی رنگ کا موسم
نہ رسم سنگ کا موسم
رھے گا یاد کا موسم
دل برباد کا موسم
اسے تب یاد آئوں گی۔۔۔۔۔
بہت ہی یاد آئوں گی۔۔۔۔!!!!!
Shakespeare On The Seasons
SPRING
From you have I been absent in the spring,
When proud pied April, dressed in all his trim,
Hath put a spirit of youth in every thing.
(Sonnet 98, 1-3)
When daffodils begin to peer,
With heigh! the doxy, over the dale,
Why, then comes in the sweet o’ the year;
For the red blood reigns in the winter’s pale.
The white sheet bleaching on the hedge,
With heigh! the sweet birds, O, how they sing!
Doth set my pugging tooth on edge;
For a quart of ale is a dish for a king.
(The Winter's Tale, 4.2.1-8)
It was a lover and his lass,
With a hey, and a ho, and a hey nonino,
That o’er the green corn-field did pass,
In the spring time, the only pretty ring time,
When birds do sing, hey ding a ding, ding;
Sweet lovers love the spring.
(As You Like It, 5.3.15-20)
Love, whose month is ever May,
Spied a blossom passing fair
Playing in the wanton air.
(Love's Labour's Lost, 4.3.104)
SUMMER
Shall I compare thee to a summer's day?
Thou art more lovely and more temperate:
Rough winds do shake the darling buds of May,
And summer's lease hath all too short a date:
Sometime too hot the eye of heaven shines,
And often is his gold complexion dimm'd;
And every fair from fair sometime declines,
By chance or nature's changing course untrimm'd;
But thy eternal summer shall not fade
Nor lose possession of that fair thou owest;
Nor shall Death brag thou wander'st in his shade,
When in eternal lines to time thou growest:
So long as men can breathe or eyes can see,
So long lives this and this gives life to thee.
(Sonnet 18)
O, how shall summer's honey breath hold out
Against the wreckful siege of battering days,
When rocks impregnable are not so stout,
Nor gates of steel so strong, but Time decays?
(Sonnet 65 5-8)
AUTUMN
The childing autumn, angry winter, change
Their wonted liveries, and the mazed world,
By their increase, now knows not which is which.
(A Midsummer Night's Dream, 2.1.116-1
The teeming autumn, big with rich increase,
Bearing the wanton burden of the prime,
Like widow'd wombs after their lords' decease.
(Sonnet 97, 6-8)
WINTER
Thou knowest, winter tames man, woman, and beast.
(The Taming of the Shrew, 4.1.10)
Thus sometimes hath the brightest day a cloud;
And after summer evermore succeeds
Barren winter, with his wrathful nipping cold:
So cares and joys abound, as seasons fleet.
(2 Henry 6, 2.4.2-5)
Here feel we but the penalty of Adam,
The seasons' difference, as the icy fang
And churlish chiding of the winter's wind,
Which, when it bites and blows upon my body,
Even till I shrink with cold, I smile.
(As You Like It, 2.1.12-16)
What freezings I have felt, what dark days seen,
What old December's bareness everywhere!
Sonnet 97
Winter's not gone yet, if the wild geese fly that way.
(King Lear, 2.4.48)
When icicles hang by the wall
And Dick the shepherd blows his nail
And Tom bears logs into the hall
And milk comes frozen home in pail,
When blood is nipp'd and ways be foul,
Then nightly sings the staring owl,
Tu-whit;
Tu-who, a merry note,
While greasy Joan doth keel the pot.
When all aloud the wind doth blow
And coughing drowns the parson's saw
And birds sit brooding in the snow
And Marian's nose looks red and raw,
When roasted crabs hiss in the bowl,
Then nightly sings the staring owl,
Tu-whit;
Tu-who, a merry note,
While greasy Joan doth keel the pot.
(Love's Labour's Lost, 5.2.916-31)
THE FOUR SEASONS
To me, fair friend, you never can be old,
For as you were when first your eye I eyed,
Such seems your beauty still. Three winters cold
Have from the forests shook three summers' pride,
Three beauteous springs to yellow autumn turn'd
In process of the seasons have I seen,
Three April perfumes in three hot Junes burn'd,
Since first I saw you fresh, which yet are green.
(Sonnet 104)
The seasons alter: hoary-headed frosts
Fall in the fresh lap of the crimson rose,
And on old Hiems’ thin and icy crown
An odorous chaplet of sweet summer buds
Is, as in mockery, set. The spring, the summer,
The childing autumn, angry winter, change
Their wonted liveries, and the mazed world,
By their increase, now knows not which is which.
(A Midsummer Night's Dream, 2.1.112-119)
Why should proud summer boast
Before the birds have any cause to sing?
Why should I joy in an abortive birth?
At Christmas I no more desire a rose
Than wish a snow in May’s new-fangled mirth;
But like of each thing that in season grows.
(Love's Labour's Lost, 1.1.100-105)
#SOURCE: http://www.shakespeare-online.com/quotes/shakespeareonseasons.html
From you have I been absent in the spring,
When proud pied April, dressed in all his trim,
Hath put a spirit of youth in every thing.
(Sonnet 98, 1-3)
When daffodils begin to peer,
With heigh! the doxy, over the dale,
Why, then comes in the sweet o’ the year;
For the red blood reigns in the winter’s pale.
The white sheet bleaching on the hedge,
With heigh! the sweet birds, O, how they sing!
Doth set my pugging tooth on edge;
For a quart of ale is a dish for a king.
(The Winter's Tale, 4.2.1-8)
It was a lover and his lass,
With a hey, and a ho, and a hey nonino,
That o’er the green corn-field did pass,
In the spring time, the only pretty ring time,
When birds do sing, hey ding a ding, ding;
Sweet lovers love the spring.
(As You Like It, 5.3.15-20)
Love, whose month is ever May,
Spied a blossom passing fair
Playing in the wanton air.
(Love's Labour's Lost, 4.3.104)
SUMMER
Shall I compare thee to a summer's day?
Thou art more lovely and more temperate:
Rough winds do shake the darling buds of May,
And summer's lease hath all too short a date:
Sometime too hot the eye of heaven shines,
And often is his gold complexion dimm'd;
And every fair from fair sometime declines,
By chance or nature's changing course untrimm'd;
But thy eternal summer shall not fade
Nor lose possession of that fair thou owest;
Nor shall Death brag thou wander'st in his shade,
When in eternal lines to time thou growest:
So long as men can breathe or eyes can see,
So long lives this and this gives life to thee.
(Sonnet 18)
O, how shall summer's honey breath hold out
Against the wreckful siege of battering days,
When rocks impregnable are not so stout,
Nor gates of steel so strong, but Time decays?
(Sonnet 65 5-8)
AUTUMN
The childing autumn, angry winter, change
Their wonted liveries, and the mazed world,
By their increase, now knows not which is which.
(A Midsummer Night's Dream, 2.1.116-1
The teeming autumn, big with rich increase,
Bearing the wanton burden of the prime,
Like widow'd wombs after their lords' decease.
(Sonnet 97, 6-8)
WINTER
Thou knowest, winter tames man, woman, and beast.
(The Taming of the Shrew, 4.1.10)
Thus sometimes hath the brightest day a cloud;
And after summer evermore succeeds
Barren winter, with his wrathful nipping cold:
So cares and joys abound, as seasons fleet.
(2 Henry 6, 2.4.2-5)
Here feel we but the penalty of Adam,
The seasons' difference, as the icy fang
And churlish chiding of the winter's wind,
Which, when it bites and blows upon my body,
Even till I shrink with cold, I smile.
(As You Like It, 2.1.12-16)
What freezings I have felt, what dark days seen,
What old December's bareness everywhere!
Sonnet 97
Winter's not gone yet, if the wild geese fly that way.
(King Lear, 2.4.48)
When icicles hang by the wall
And Dick the shepherd blows his nail
And Tom bears logs into the hall
And milk comes frozen home in pail,
When blood is nipp'd and ways be foul,
Then nightly sings the staring owl,
Tu-whit;
Tu-who, a merry note,
While greasy Joan doth keel the pot.
When all aloud the wind doth blow
And coughing drowns the parson's saw
And birds sit brooding in the snow
And Marian's nose looks red and raw,
When roasted crabs hiss in the bowl,
Then nightly sings the staring owl,
Tu-whit;
Tu-who, a merry note,
While greasy Joan doth keel the pot.
(Love's Labour's Lost, 5.2.916-31)
THE FOUR SEASONS
To me, fair friend, you never can be old,
For as you were when first your eye I eyed,
Such seems your beauty still. Three winters cold
Have from the forests shook three summers' pride,
Three beauteous springs to yellow autumn turn'd
In process of the seasons have I seen,
Three April perfumes in three hot Junes burn'd,
Since first I saw you fresh, which yet are green.
(Sonnet 104)
The seasons alter: hoary-headed frosts
Fall in the fresh lap of the crimson rose,
And on old Hiems’ thin and icy crown
An odorous chaplet of sweet summer buds
Is, as in mockery, set. The spring, the summer,
The childing autumn, angry winter, change
Their wonted liveries, and the mazed world,
By their increase, now knows not which is which.
(A Midsummer Night's Dream, 2.1.112-119)
Why should proud summer boast
Before the birds have any cause to sing?
Why should I joy in an abortive birth?
At Christmas I no more desire a rose
Than wish a snow in May’s new-fangled mirth;
But like of each thing that in season grows.
(Love's Labour's Lost, 1.1.100-105)
#SOURCE: http://www.shakespeare-online.com/quotes/shakespeareonseasons.html
Labels:
English,
Literature,
Quotations,
Quote,
Seasons,
Shakespeare,
William
Seasons
"Spring is the time of year when it is summer in the sun and winter in the shade.”
― Charles Dickens, Great Expectations
“Spring passes and one remembers one's innocence.
Summer passes and one remembers one's exuberance.
Autumn passes and one remembers one's reverence.
Winter passes and one remembers one's perseverance.”
― Yoko Ono
"In the depth of winter, I finally learned that within me there lay an invincible summer.”
― Albert Camus
“Aprils have never meant much to me, autumns seem that season of beginning, spring.”
― Truman Capote, Breakfast at Tiffany's
“Her pleasure in the walk must arise from the exercise and the day, from the view of the last smiles of the year upon the tawny leaves and withered hedges, and from repeating to herself some few of the thousand poetical descriptions extant of autumn--that season of peculiar and inexhaustible influence on the mind of taste and tenderness--that season which has drawn from every poet worthy of being read some attempt at description, or some lines of feeling.”
― Jane Austen, Persuasion
“Listen! The wind is rising, and the air is wild with leaves,
We have had our summer evenings, now for October eves!”
― Humbert Wolfe
“With so many trees in the city, you could see the spring coming each day until a night of warm wind would bring it suddenly in one morning. Sometimes the heavy cold rains would beat it back so that it would seem that it would never come and that you were losing a season out of your life. This was the only truly sad time in Paris because it was unnatural. You expected to be sad in the fall. Part of you died each year when the leaves fell from the trees and their branches were bare against the wind and the cold, wintry light. But you knew there would always be the spring, as you knew the river would flow again after it was frozen. When the cold rains kept on and killed the spring, it was as though a young person had died for no reason.
In those days, though, the spring always came finally but it was frightening that it had nearly failed.”
― Ernest Hemingway, A Moveable Feast
― Charles Dickens, Great Expectations
“Spring passes and one remembers one's innocence.
Summer passes and one remembers one's exuberance.
Autumn passes and one remembers one's reverence.
Winter passes and one remembers one's perseverance.”
― Yoko Ono
"In the depth of winter, I finally learned that within me there lay an invincible summer.”
― Albert Camus
“Aprils have never meant much to me, autumns seem that season of beginning, spring.”
― Truman Capote, Breakfast at Tiffany's
“Her pleasure in the walk must arise from the exercise and the day, from the view of the last smiles of the year upon the tawny leaves and withered hedges, and from repeating to herself some few of the thousand poetical descriptions extant of autumn--that season of peculiar and inexhaustible influence on the mind of taste and tenderness--that season which has drawn from every poet worthy of being read some attempt at description, or some lines of feeling.”
― Jane Austen, Persuasion
“Listen! The wind is rising, and the air is wild with leaves,
We have had our summer evenings, now for October eves!”
― Humbert Wolfe
“With so many trees in the city, you could see the spring coming each day until a night of warm wind would bring it suddenly in one morning. Sometimes the heavy cold rains would beat it back so that it would seem that it would never come and that you were losing a season out of your life. This was the only truly sad time in Paris because it was unnatural. You expected to be sad in the fall. Part of you died each year when the leaves fell from the trees and their branches were bare against the wind and the cold, wintry light. But you knew there would always be the spring, as you knew the river would flow again after it was frozen. When the cold rains kept on and killed the spring, it was as though a young person had died for no reason.
In those days, though, the spring always came finally but it was frightening that it had nearly failed.”
― Ernest Hemingway, A Moveable Feast
Baat Niklegi Tu Pher Door Talak Jaayegi
Baat nikle gi tu pher door talak jayegi,
Log bewajah udasi ka sabab poochain ge,
Ye bhi poochain ge ke tum itni parishan kyon ho,
Ungliyan uthain gi sookhay hue baalon ki taraf,
Aik nazr daikhain ge guzray hue saalon ki taraf,
Chorriyon par bhi kayi tanz kiye jayain ge,
Kaanptay honton par bhi fikray kasay jayain ge,
Log zalim hain har aik baat ka taana dain ge,
Baaton baaton mein mera zikar bhi le aayain ge,
Un ki baaton ka zara sa bhi asar mat laina,
Warna chehray ke taasur se samajh jayain ge,
Chahay kuch bhi ho sawalaat na karna un se,
Mere baray mein koi baat na karna un se,
Baat nikle gi tu pher door talak jayegi......!!
Tuesday, 10 September 2013
Subscribe to:
Posts (Atom)